ایک وقت تھا کہ صحافی معاشرے میں ایک معلم کی حیثیت رکھتا تھا اس کا کردار ہی اس کی زبان اور الفاظ تھے جہاں حق ہوتا تھا وہیں صحافی کھڑا نظر آتا تھا اور جہاں صحافی کھڑا ہوتا تھا وہیں حق نظر آتا تھا اس کی قلم اور زبان سے محض سچائی ٹپکتی تھی اور اس کے ہاں دنیاوی مال و متاع ثانوی حیثیت رکھتا تھا پھر وقت نے پلٹا کھایا اور دنیا کمرشل ہوگئی پھر لوگوں کے کردار کا فیصلہ ان کا پیسہ کرنے لگا جب حالات نے اس قدر پلٹا کھایا تو صحافی کے ہاں بھی معاشرت کی جگہ معیشت نے لے لی اور پھر صحافی کی قلم اور زبان میں درباری سکونت اختیار کر لی
جب صحافی کے ہاں معیشت اور معاشرت کی بات ہو رہی ہے تو مرحوم نظامی صاحب کا ایک واقعہ عرض کرتا چلوں جو پاکستان کے مشہور ٹی وی اینکر آفتاب اقبال نے ایک پروگرام میں سنایا تھا وہ کہتے ہیں کہ
ایک مشہور کمپنی کا منیجر اپنا ایک ایڈ اخبار میں شائع کروانے کے لیے آیا تو نظامی صاحب ان دنوں اس اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے تو دفتر والوں نے ایڈ شائع کرنے سے معذرت کر لی اور کہا چونکہ ان ایڈ والی تصویروں میں ماڈل نے نازیبا لباس پہنا ہوا ہے اور نظامی صاحب اس طرح کا ایڈ نہیں چھپنے دیں گے منیجر کے اصرار کرنے پر جب اسے نظامی صاحب سے ملایا گیا تو نظامی صاحب نے کہا کہ اگر آپ بضد ہیں کہ آپ نے یہ ایڈ اخبار میں چھپوانا ہے تو پھر کچھ ایسی تصویریں لے آئیں جن میں نازیبا لباس نہ ہو ورنہ ان تصویروں کے ساتھ یہ ایڈ آپ مجھے منہ مانگے پیسے بھی دیں گے تو میں نہیں چھاپیوں گا ۔ نظامی صاحب کے یہ الفاظ سن کے منہ سے بے ساختہ ایک جملہ نکلتا ہے
ہائے وہ وقت وہ باتیں وہ زمانہ ان کا
ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ قلم اور زبان کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ وہاں قلم اور زبان برائے فروخت کے اشتہارصاحب اقتداد لوگوں کے در و دیوار پر چسپاں ملتے ہیں اب 70 سالوں میں پہلی دفعہ ان قلم اور زبان فروش جہادیوں کا احتساب ہوا تو معلوم ہوا کہ اس لشکر کے صف اول کے سپہ سالاروں میں کسی کے پاس اونے پونے داموں پر سرکاری پٹرول پمپ پر آئے تھے اور کوئی سپہ سالار سرکاری ٹی وی کے کروڑوں روپے کھا گیا تھا اور ان سرکاری کروڑوں روپے سے اپنی قلم اور زبان کو طاقت دیتے تھے تاکہ وہ اس ملک کے غریبوں کی آواز بن سکیں میں ایک دن محفل میں بیٹھ کے صحافتی اقدار کا تذکرہ کر رہا تھا کہ میرے دوست کے چند جملوں نے مجھے شرم سے پانی پانی کر دیا اس نے کہا حضور کن اقدار کی باتیں کر رہے ہیں آپ
کیا صاحب اقتدار لوگوں کے میڈیا سیل میں شامل ہونا صحافتی اقدار ہیں۔؟
کیا صحافت کے نام پر لفافے لینا بھتہ خوری کرنا اور لوگوں کو دھمکانا صحافتی اقدار ہیں۔ طوائف بھی اپنے پیشے کے ساتھ دھوکا نہیں کرتی اور ایک طرف آپ صحافی حضرات ہیں کہ آپ کی قلم اور زبان کی بولیاں لگائی جاتی ہے میں شرم کے مارے چپ ہو گیا کیوں کہ میرے پاس الفاظ نہیں تھے ۔
کوئی شخص اور کوئی معاشرہ بھی اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک وہ خود احتسابی نہ کرے صحافی حضرات کو بھی چاہئے کہ خدا کی طرف سے دیئے گئے اس کردار کو ایمان داری سے نبھائیں گے تاکہ اس دن سرخرو ہوں جس دن قدرت کے دیئے ہوئے تمام کرداروں کا احتساب ہوگا