دین پسندو ں کے لیے نیا امتحان اور ان کی ذمہ داریاں
گزشتہ کچھ عرصہ سے اسلام اور دین سے وابستہ چند لوگ لوگ ایسی ایسی حرکات و سکنات میں ملوث ہوتے ہیں جو انسانیت کے لیے شرمندگی کا باعث ہیں۔جن کی وجہ سے جو لوگ حقیقی معنوں میں دین اسلام کی خدمت اور دین اسلام کا پیغام دے رہے ہیں وہ بھی پریشانی اور مخالفت کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے حالات میں وہ لوگ حقیقت میں بہت بڑے ا متحان سے گزرتے ہیں۔ مگر ہمیں چند افراد کی غلطی اور کوتاہی کی وجہ سے سب پر الزام نہیں لگانا چاہیےـ بلکہ حقائق کو سمجھ کر صرف کالی بھیڑوں پر ہی انگلیاں اٹھانی چاہیے۔ جس طرح تمام شعبہ ہائے زندگی کے اندر کالی بڑے موجود ہیں اسی طرح دینی مذہبی تحریکوں اور مذہبی اداروں کے اندر بھی کچھ کالی بھیڑیں موجود ہیں، جن کے اعمال اور افعال قابل مذمت ہیں۔ اور دل سوزی کا باعث ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ، جو لوگ دین کے ساتھ مخلص ہیں اور صحیح معنوں میں دین کی خدمت کر رہے ہیں ان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
كيونكہ ،ان باتوں پر ہمارا یقین کل بھی پختہ تھا اور اعتماد آج بھی قائم ہے۔ ہم نئے دور کے تقاضوں کے نام پر دینی تعلیمات میں کسی ترمیم کے قائل ہیں اور نہ ہی نام نہاد اجتہاد کے نام پر احکامِ شریعت میں کسی بے جا تاویل کے روادار۔
دینی تعلیمات کی حقانیت، اہمیت اور افادیت پر ہمارا پختہ یقین ہے اور انہی کی صحیح پیروی اور کامل نفاذ میں ہم نہ صرف اپنی بلکہ پوری انسانیت کی فوز و فلاح سمجھتے ہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ دینی تعلیمات کا فروغ، دین کی تبلیغ و اشاعت اور شریعتِ محمدیہ کے نفاذ کی خواہش اورمطالبہ ہمیشہ دین پسند طبقے کی طرف سے کیا گیا اور جن لوگوں کی طرف سے یہ آواز ہمیشہ اٹھائی گئی ان کی بڑی تعداد کا تعلق مدارسِ دینیہ سے ہے۔
فروغِ علم میں ان مدارس کی پوری تاریخ ہے اور اشاعتِ علم میں ان کا کردار اس تاریخ کا روشن باب ہے۔ جن لوگوں نے ہمیشہ دینی تعلیمات کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے اور نفاذِ شریعت کا مطالبہ کیا ہے۔ ناموسِ رسالت کی بات کی ہے۔ عقیدہ ِختم ِنبوت کا تحفظ چاہا ہے۔ بے حیائی، عریانی اور فحاشی کے خلاف احتجاج کیا ہے اور ملکِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئینِ پاکستان کے عین مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ بھی بجا ہے اور ان کی یہ کاوشیں بھی لائقِ تحسین ہیں
اصولی اور نظریاتی طور پر اہلِ مدارس آج بھی اسلام کو مکمل ضابطہِ حیات سمجھتے ہیں اور نفاذِ شریعت کو ہی تمام مسائل کا حل جانتے ہیں۔ مقصد کی سچائی اور کام میں اخلاص کے باوجود مدارس سے وابستہ افراد بھی بہر حال انسان ہیں۔ ان کے متعلق فرشتہ ہونے کا گمان درست ہے نہ ہی ان کے گرد کے تقدُّس کا کوئی ایسا ہالہ بُنا جا سکتا ہے جو ان کے متعلق گناہوں سے یکسر مبرا ہونے کی ضمانت دے سکے۔
اہلِ مدارس کھلے دل سے اس بات کو تسلیم کرتے ہیں (اور اگر کچھ لوگ نہیں کرتے تو انہیں بھی تسلیم کرنا چاہیے) کہ ایسا جرم، ایسی قبیح حرکت، ایسی فحش غلطی بہرحال جرم ہے، گناہ ہے، غلطی ہے۔ اور اس کی وہی سزا ہے جو شریعت ِ اسلامیہ نے مقرر کر رکھی ہے۔
کسی کا ظاہر،کسی کی دستارِ فضیلت، کسی کی علمی اسناد، کسی کے القابات اور کسی کی تدریسی خدمات کی بنا پراسے کسی قسم کی رعایت نہیں دی جا سکتی۔
اہل ِمدارس کو بڑے واضح الفاظ میں یہ دو ٹوک موقف اپنانا چاہیے اور اس جرم کی زبانی کلامی مذمت کی بجائے قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔
اس کھلے اعتراف کے ساتھ ساتھ دین سے متنفر و بیزار اور آزاد خیال (سیکولر اور لبرل ) طبقہ کے لیے بھی یہ پیغام ہے کہ ملکِ پاکستان میں موجود ہزاروں مساجد و مدارس سے لاکھوں طلباء و اساتذہ وابستہ ہیں۔
دینی تعلیمات کے فروغ، معاشرے کی مذہبی ضروریات کی تکمیل، قرآن پاک کی خدمت، امت ِمسلمہ کے مشترکہ علمی سرمایہ کی حفاظت و اشاعت اور جہالت کی تاریکی میں علم کی شمع جلا کر روشنی بہم پہنچانے میں مدارس کے کردار کو ان چند واقعات کی روشنی میں یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔
یہ واقعات قابلِ مذمت اور قابلِ مواخذہ ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مدارس کی پراڈکٹ ہی یہی ہے۔ اور مدارس کا تعارف ہی اس قبیح جرم کو سمجھ لیا جائے۔
یہ چند واقعات منظرِ عام پر کیا آئے اس طبقے کی تو گویا لاٹری نکل آئی۔ انہیں برائی اور بے حیائی کے خلاف اسلامی تعلیمات غیر مؤثر معلوم ہونے لگیں۔ عریانی و فحاشی، اختلاطِ مرد و زن اور بے پردگی کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز ،جو ان کو ہر وقت بے مزہ کیے رکھتی تھی، دبتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
تقوی و طہارت، عفت و پاکیزگی اور خوفِ خدا کے مبلغین میں سے معدودے چند افراد کی ان قبیح، قابلِ مذمت اور قابلِ مواخذہ حرکات سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ جنسی زیادتی کے ان واقعات کا سبب اور محرک، بے حیائی، ناچ گانا، اختلاط ِ مردو زن اور بے پردگی ہر گز نہیں اور ان تمام چیزوں کے جائز ہونے کا گویا انہیں ایک جواز سا مل گیا۔
وہ ملامت جو ضمیر کے کسی گوشے سے ہوا کرتی تھی وہ بھی ختم ہونے لگی۔ لیکن یہ ساری باتیں ان مسائل کی غلط توجیہ ہیں۔
“اوردل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے”
کا مصداق ہیں۔ اسلامی تعلمیات کے برحق ہونے میں کوئی شک ہے نہ کسی بھی انسان کا بہک جانا بعید از قیاس ہے۔
اگر معاشرے کے دیگر طبقات میں اس جرم کی نشاٰندہی کی جاتی ہے تو اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان مثالوں سے اہلِ مدارس کے لیے اس جرم کا جواز ثابت کیا جائے بلکہ اس کا مقصد دین بیزار، آزاد خیال طبقے کی یک طرفہ، جانبدارانہ اور متعصبانہ سوچ میں ایک توازن قائم کرنا ہوتا ہے کہ چند واقعات کی بنا پر مدارس کو برائی کا اڈا سمجھ لینا اور چند آدمیوں کے جرم کا قصور وار اس پورے طبقے کو سمجھ لینا قرینِ انصاف نہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اس قسم کے دلدوز واقعات معاشرتی برائی ہیں۔ بالخصوص بے سہارا بچے جنہیں کم عمری میں مختلف جگہوں پر کام کرنا پڑتا ہے ان کا کوئی پرسان ِ حال نہیں۔
چاہیے تو یہ کہ ان بے سہارا بچوں کو اس درندگی سے بچانے کے لیے کوئی مشترکہ کاوش کی جائے تاکہ یہ نوخیز کلیاں ہوس پرستوں کی زد سے محفوظ رہ سکیں۔
آپ اندازہ کیجے کہ جس بچے کے ساتھ بچپن میں ہی اس برائی کا ارتکاب ہو گا اور باربار ہو گا جوان ہوکر اس کی طبعیت اور عادات کس قسم کی ہوں گی۔ اس کے آگے قلم میں لکھنے کی استطاعت نہیں۔
:بس اتنا ہی کہنا ہے کہ
یہ برائی ہمارا جتماعی معاشرتی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے ہمیں مشترکہ اور سنجیدہ کاوشیں کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ مذہب کی ہار ہے نہ لا دینیت کی جیت۔
Read this article and if you find it appropriate, share it further so that others can also benefit from this article.
You don’t have to defend something with a strong attitude. Sometimes you can defend something with scientific and rational arguments.