میراتھان یونان میں ایک چھوٹا سا میدان ہے. جو صرف پانچ میل لمبا اور دو میل چوڑا ہے. اس کے ایک طرف سمندر ہے .باقی تین پہلوؤں کو پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے .490 کے موسم بہار میں اسی مقام پر ایرانیوں اور یونانیوں کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی. جس میں ایرانیوں نے تعداد میں چھ گنا ہونے کے باوجود شکست کھائی-
جب ایران کے شہنشاہ دارا گشتا سپ کی فتوحات کا سکہ ایشیا میں رواں ہو چکا تو اس نے یونان کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا .جو اس زمانے میں اوج شہرت پر پہنچا ہوا تھا .اس نے اپنے ایک سپہ سالار کو 600 جہازوں کا بیڑا چالیس ہزار سے سات ہزار تک سوار اور بے شمار پیادہ فوج دے کر یونان بھیجا .ایرانی جہاز میراتھان میں لنگر انداز ہوئے، جہاں سے ایتھنیز تک دو راستے جاتے تھے. اور فاصلہ 24 میل سے زیادہ نہ تھا. جو یونانی فوج مقابلے میں آئی وہ دس ہزار سے زیادہ نہ تھی .ایرانی میراتھان کے میدان میں خیمہ زن ہوئے. اور یونانی پہاڑوں پر راستہ روکے بیٹھے تھے. ایرانی سپہ سالار نے چند دن تک کوئی حرکت نہ کی لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کی سوار فوج کو پہا ڑی راستے طے کر کے ایتھنیز پہنچنامشکل ہوگا تو بیس ہزار سپہ کو میراتھان میں چھوڑا اور باقی کو جہازوں میں سوار کر کے ایک اور بندر گاہ کی طرف روانہ ہو گیا. جو ایتھنیز سے بہت قریب تھی.
اب یونانیوں نے فیصلہ کرلیا کہ ایرانیوں پر ہلہ بول دینا چاہیے.یونانی سپہ سالار مٹیا ڈیز نے لڑائی کا جو منصوبہ تیار کیا اس سے بعد ازاں بڑے بڑے سپہ سالار کام لیتے رہے تھے . یونانیوں کے پاس بڑی بڑی ڈھالیں اور نیزے تھے.مٹیا ڈیز نے دائیں اور بائیں بازو کو خوب مضبوط کر دیا اور قلب کو کمزور رکھا. لڑائی شروع ہوئی تو ایرانیوں نے قلب ہی پر حملہ کیا .جو پیچھے ہٹا اور ایرانی آگے بڑھے. اس اثنا میں یونانی فوج کے بازووں نے پوری ایرانی فوج کو نرغے میں لے لیا. اور قتل عام شروع کر دیا . چھ ہزار چار سو ایرانی کھیت رہے باقی بھاگ کر جہازوں پر سوار ہو گئے .
اب یونانی تیزی سے کوچ کرتے ہوئےایتھنیز کے سامنے پہنچ گئے. تا کہ ایرانیوں کے نئے حملے کی روک تھام کر سکیں. ایرانی سپہ سالار نے یہ مستعدی دیکھی تو لنگر اٹھائے واپس چلا گیا. دس سال میں مزید تیاری کرکے پھر ایک بیڑا یونان آیا جس نے سلامس کی جنگ میں یونانیوں سے شکست کھائی.ایک چھوٹے سے ملک کا بہت بڑی سلطنت کے مقابلے میں یوں کامیابی حاصل کرنا بجائے خود ایک بہت بڑا واقعہ ہے. لیکن میراتھان کے ساتھ بعض نہایت ولولہ خیز یادیں وابستہ ہیں. جنگ میراتھان میں ایرانیوں کی شکست کے بعد ایک یونانی بہادر ایتھنیز کی طرف دوڑا اور کسی مقام پر دم لیے بغیر شہر کے دروازے تک پہنچ گیا .وہ بیچارا لڑائی میں حصہ لینے کے بعد تھکان سے چور ہو رہا تھا. اس پر 24 میل کا پہاڑی راستہ دوڑ کرطے کیا .آخرطاقت جواب دے گئی. اپنے اہل وطن کو صرف یہ پیغام پہنچا سکا کہ جشن مناؤ ہمیں فتح حاصل ہوئی .
اس کے بعد گرا اور دم توڑ دیا. یونانیوں نے اولمپک کھیلوں میں اس بہادر یو نانی کی دوڑ کو بھی شامل کرلیا .چنانچہ جب ان کھیلوں کا انتظام ہوتا تو لمبی دوڑ کا مقابلہ بھی کیا جاتا تھا.جسے میراتھان کی دوڑ کہا کرتے تھے .1896 میں اولمپیائی کھیل از سر نو شروع ہوئے .تو اس دوڑ کا بھی انتظام کیا گیا. عجیب بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ اس دوڑ میں یونانی کسان ہی سب سے اول رہا. اس نے یہ لمبی دوڑ دو گھنٹے 55 منٹ اور بیس سیکنڈ میں پوری کی.