برصغیر کی تقسیم کے بعد فوجی اثاثوں کو دونوں نئے ممالک میں تناسب کے مطابق تقسیم کرنا بھی ضروری تھا لیکن اس معاملے میں بھی انصاف سے کام نہ لیا گیا۔بھارت پاکستان کو کمزور رکھنا چاہتا تھا تاکہ وہ بھارت کا حصہ بننے پر مجبور ہو جائے۔تقسیم سے پہلے متحدہ ہندوستان کا کمانڈر چاہتا تھا کہ افواج کو بانٹا نہ جائے اور انھیں ایک ہی کمانڈ کے ما تحت رکھا جائے۔ مسلم لیگ نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور اصرار کیا کہ فوجی وسائل اور اثاثے دونوں ممالک میں بانٹ دیئے جائیں۔
حکومت برطانیہ کو یہ مطالبہ ماننا پڑا کہ بھارت اور پاکستان میں تمام فوجی اثاثے بالترتیب 64فیصد اور36 فیصد کے تناسب سے تقسیم کر دئیے جائیں۔ متحدہ بھارت میں جو اسلحہ ساز فیکٹریاں کام کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں تھی جسے پاکستان کو ملنے والے علاقے میں بنایا گیا ہو۔ بھارت کو تو یہی برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ پاکستان بھارت سے جدا ہو رہا ہے تو بھارت نے اسلحہ ساز فیکٹری تو دور کی بات مشینری کا کوئی پرزہ بھی پاکستان کو منتقل کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ کافی تکرار کے بعد طے پایا کہ اسلحہ ساز فیکٹری کے حوالے سے پاکستان کو60 ملین روپے دئیے جائیں گے تاکہ پاکستان اپنی اسلحہ ساز فیکٹری قائم کر سکے ۔ عام فوجی اثاثوں کی تقسیم کا جو فارمولا بھی بنایا گیا
حکومت ہند نے اسے مسترد کر دیا جس سے حالات مزید پیچیدہ ہو گئے۔ یوں پاکستان کو اپنا جائز حصہ لینے سے محروم کر دیا گیا۔بھارت نے اپنی ان گھٹیا حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کا حصہ بھی خود رکھ لیا اور پاکستان کو اس کا حصہ نہیں دیا۔لیکن اس کے باوجود بھی آج الحمدوللہ پاکستان کا نام دنیا کے پاورفل ممالک میں شمار ہوتا ہے۔انشاءاللہ وہ وقت دور نہیں پاکستان پوری دنیا پر راج کرے گاقائداعظم کا فرمان ہے کام کام اور کام دوستو ہم سب نے مل کر اس ملک کو آگے برھانا ہے
ہم سب نے ہی علم حاصل کر کے اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے علم بہت طاقتور چیز ہے علم کے زریعے ہی ہم سب کچھ کر سکتےہیں ہم سب پاکستانی ہیں اور ہمیں سب پتا ہے کہ کس طرع ہمارے بڑھوں نے اس ملک کے لئیے قربانیاں دی ہیں اور کتنی مشکل سے اس ملک کو آزاد کروایا گیا ہے اس ملک میں شہیدوں کا خون ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دشمن پاکستان کو نست و نابود کے آمین
نیوز فلیکس 05 مارچ 2021