ہمارا سکول گاؤں میں دسویں تک ہی تھا ۔ تمام اساتذہ بہت اچھی تھی ۔ بلکہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد انھوں نے تعلیم حاصل کرنے میں بہت ساتھ دیا ۔ جس کی وجہ سے دسویں جماعت مکمل ہوسکی ۔ ہماری ٹیچر سکول کی انچارج بھی تھی ۔ بہت نرم مزاج خاتون تھیں ۔ سب ٹیچرز ایک دوسرے کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرتیں ۔
لیکن ٹیچرز اور چپڑاسی سے لے کر ہر ایک سکول کی ماسی سے تنگ تھا ۔ وہ لڑکیوں پر اپنا رعب جماتی ۔ وہ کوئ بھی کام نہیں کرتی تھی ۔وہ خود کو صاف ستھرا رکھتی اور سارا دن ٹیچر کے برار کرسی پر بیٹھی رہتی ۔ لڑکیوں سےکہتی کہ اپنے اپنے کمرے کی صفائ کرو ، صفائ خود کیا کرو میں سکول کی صفائ کرنے کے لیے نہیں ہوں ۔ جب ہماری ٹیچر نے ہمیں صفائ کرتے دیکھا تو وجہ پوچھی ،جب پوری کلاس نے وجہ بتائ کہ ماسی نے صفائ کرنے کو کہا تھا ۔ تو میڈم نے خود جھاڑو پکڑا اور صفائ کرنا شروع کر دی ۔ اس بات پر ہمیں بہت برا محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ ٹیچر جو پورے سکول کی انچارج تھی ۔ ہمارے سامنے جھاڑو لگاۓ ۔ ہم نے کہا کہ “ٹیچر ہم جھاڑو لگا دے گے ،آپ چھوڑ دے ۔ ” ٹیچر نے کہا کہ ” اگر ماسی جھاڑو نہیں لگاتی جوکہ اس کی تنخوا لے رہی ہے ۔ اور ہم تنخوا لے رہے ہیں ۔ تو پھر بچیاں جھاڑو کیوں لگائے ۔ مگر ٹیچر کو جھاڑو لگاتے دیکھ کر بھی اس ماسی کو پھر بھی شرم نہ آئ ۔ بلکہ یہ اس کا اخلاقی فرض تھا ۔
بس وجہ یہ تھی کہ کہ وہ کسی بڑے افسر کی سفارش کی وجہ سے آئ تھی اسی بات کا غرور تھا اسے اور اسی وجہ سے وہ کسی کی سنتی نہں تھی ۔وہی بات آج مجھے اتنا عرصہ گزرنے کے بعد دیکھنے کو ملی ۔کہ جب میں اپنی بچی کے داخلے کے لیے کالج گئی گورنمنٹ کالج تھا ۔ ماسی کالج کے مین گیٹ پر بیٹھی تھی ۔ نہ تو وہ بچیوں اور ان کی ماؤں سے اخلاق کے داؤرے میں رو کر بات کر رہی تھی ۔ کچھ بچیاں اپنا کالج کارڈ لانا بھول گئ تھی اور داخلے کی بھی آخری تاریخ تھی ۔ بچیاں ماسی کی منتیں کر رہی تھی کہ آج آخری تاریخ ہے ہمیں اندر جانے دو ۔ لیکن ماسی کہہ رہی تھی کہ کالج کارڈ لے کر آؤ گی تو اندر جانے دوں گی ۔ ایک بچی نے تو ماسی کو یہ بھی بتایا کہ اس کا گھر بہت دور ہے ، جب تک وہ کالج کارڈ لے کر آۓ گی کالج کا وقت ختم ہو جائے گا ۔ پھر بھی اسے اندر نہیں جانے دیا ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس کی کوئ بیٹی نہیں ہے ۔ ہر بچی کے ساتھ بد اخلاقی کے ساتھ بول رہی تھی ۔
جو ماسی کی جان پہچان والی تھی ان کو ہاتھ کے اشارے سے اندر جانے کو کہہ دیتی ۔ دھند بہت زیادہ تھی ۔ ماسی نے اپنے پاس آگ جلائی ہوئی تھی ۔ ایک بچی ماسی کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اماں مجھے سردی لگ رہی ہے میں تھوڑی دیر آگ کے پاس کھڑی ہو جاؤ اماں نے اسے بصی آڑے ہاتھوں لے لیا اور کہنے لگی کہ جاؤ یہاں سے آگ میں نے اپنے لیے جلائ ہیں ۔ بندہ پوچھے کے اگر کوئی اور آگ کے پاس کھڑا ہوجاۓ گا تو کیا آگ کم ہو جائے گی ۔ اگر ان بچیوں کوآج داخلہ فارم نہ ملا تو غریب والدین تو انہیں ڈبل فیس نہیں دے گے ۔ بلکہ ان کی شادی کا فرض ہی ادا کرے گے ۔ ہمارے معاشرے میں پڑھی لکھی ماسیوں کا ہونا ضروری ہے ۔ جن کا کم از کم اخلاق تو اچھا ہوں ۔ جوکہ بچیوں اور والدین کے ساتھ تمیز سے بات تو کر سکے ۔ حکومت کو گورنمنٹ سکول و کالج کے درجہ چہارم کے سٹاف پر توجہ کی ضرورت ہے ۔