ایک بار ایک بہت امیر ترین آدمی ایک بزرگ کی چھوٹی سی جھونپڑی میں گیا کیونکہ اس نے بہت سنا تھا اس بزرگ کے بارے میں اس کے دل میں آیا کہ میں ایک بار جا کر اسے دیکھتا ہوں کیوں کہ لوگ اس کی بہت تعریف کرتے تھے یہ جاننے کے لیے کہ لوگ اس کی اتنی تعریف کیوں کرتے ہیں اور جب وہ اس جھونپڑی میں گیا جہاں ایک قالین بچھا ہوا تھا جہاں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے نیچے اور بزرگ ان کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کچھ سوال جواب چل رہے تھے
جیسے ہی وہ آمیر آدمی اندر گیا
وہ اکیلا نہیں تھا اس کے ساتھ چار بورڈی گاڈ بھی تھے اور اس کی یہ عادت تھی کہ جہاں پر بھی وہ جاتا تھا لوگ اپنی جگہ سے کھڑے ہوجاتے تھے لیکن یہاں پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا بزرگ نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں کیونکہ وہ بزرگ کسی کے سوال کا جواب دے رہا تھا لیکن اس امیر آدمی کو اس بات پر غصہ آگیا آدمی کو لگا کے یہ میری بےعزتی ہے تو اس آدمی نے بزرگ کی بات کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے غصے سے کہا میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں بزرگ نے کہا تھوڑی دیر روکو پہلے میں ان کے سوال کا جواب دے دوں پھر میں آپ سے بات کروں گا تب تک اگر آپ چاہیں تو بیٹھ سکتے ہیں
بزرگ کے اتنے ہی کہنے سے
امیر آدمی کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا اور پھر اس نے اپنا سارا غصہ اس بزرگ پر نکال دیا امیر آدمی نے بزرگ سے کہا تجھے پتا بھی ہے میں کون ہوں اور تو کس سے بات کر رہا ہے بزرگ نے اس کی طرف دیکھا اور کہا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کون ہے لیکن آپ جو کوئی بھی ہیں اگر آپ چاہتے ہیں میں آپ سے بات کروں تو آپ تھوڑی دیر رک جائیں بزرگ کے یہ کہتے ہیں آدمی غصے سے پاگل ہو گیا اور کہا کہ اب میں تجھے تیری اصلی اوقات یاد دلاؤں گا تجھے پتا بھی ہے میں تیرے بارے میں کیا سوچتا ہوں بزرگ نے کہا مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ میرے بارے میں کیا سوچتے ہو
آدمی نے کہا
تیرا بس ایک ہی مقصد ہے تو ان سب لوگوں سے پیسے لوٹنا چاہتا ہے آدمی کے اتنا بولنے کے بعد بھی بزرگ کے چہرے پر ہلکی سی مسکان بنی رہی اور اپنی آنکھیں بند کیں تھوڑی دیر کے لئے اور پھر اپنی آنکھیں کھولی اور کہا میرے دل میں آپ کے لیے کوئی شکوہ نہیں ہے اور میرے دل میں آپ کے لیے کوئی برائی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی غلط سوچ ہے یہ سن کر امیر آدمی خوشی خوشی اس کی جھونپڑی سے چلا گیا اور جا کر اپنے باپ سے بزرگ کا سارا قصہ سنایا کہ بزرگ نے میرے بارے میں اتنی اچھی باتیں کی
یہ سن کر امیر آدمی کے باپ نے کہا
کے انہوں نے تمہاری تعریف نہیں کی ہے کیوں کہ انہوں نے وہ نہیں کہا جو تم ہو بلکہ انہوں نے وہ کہا ہے جو وہ خود ہیں اور تم نے ان کو جو کچھ بھی کہا وہ وہ نہیں ہے بلکہ وہ تم خود ہو
تو اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے
کہ یہ دنیا تمہیں ویسی نہیں دیکھتی ہے جیسی یہ دنیا ہے بلکہ یہ دنیا تمہیں ویسی دیکھتی ہے جیسے تم خود ہو جس کی نظر جیسی ہے اس کے لیے یہ دنیا ویسی ہی ہے تو اگر تم اپنی دنیا کو بدلنا چاہتے ہو تو اپنے نظریےکو بدلو