Skip to content

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عبرت کا نشان بن گئے

وقت کتنی جلدی بدل جاتا ہے اس کا اندازہ اگر کسی نے لگانا ہے تو سپر پاور امریکہ کے صدر ٹرمپ کی بے بسی سے لگائے۔ وہ صدر ٹرمپ جو اپنی صدارت کے عروج پر مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشتگرد کہہ کر مخاطب کرتا تھا ۔آج وہ اس حال میں پہنچ چکا ہے کہ صدارتی کرسی پر موجود ہوتے ہوئے اپنے ہی ملک میں انتہا پسند قرار دیا جا چکا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اس کے سوشل اکائونٹس اس بنیاد پر معطل کر رہے ہیں تاکہ وہ ان سے تشدد نہ پھیلائے۔
ٹرمپ کی حالتِ زار بہت سے لوگوں کے لیے باعثِ عبرت بھی ہے کیونکہ دنیاوی طاقتیں فانی ہیں۔ امریکہ میں کیپیٹل ہل واقعے کے بعد شدید اضطراب پایا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس الرٹ ہے جبکہ امریکی سینیٹ کو بھی ڈر ہے کہ کہیں ٹرمپ، انتہائی قدم اٹھا کر بحرانی کیفیت نہ پیدا کر دے۔ اس حوالے سے امریکی سینیٹ کی اسپیکر نینسی پاول دھمکی بھی دے چکی ہیں کہ “ٹرمپ خود استعفیٰ دے دیں ورنہ تیز ترین مواخذے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس تمام تر پریشان کن صورتحال کے باعث گوگل کے زیر ملکیت یوٹیوب چوتھا سب سے بڑا پلیٹ فارم بن گیا ہے جس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو ‘تشدد سے جاری امکانات’ کے خدشات کے پیش نظر کم سے کم ایک ہفتہ معطل کردیا ہے۔

ٹویٹر ، فیس بک اور انسٹاگرام سے پہلے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی خدمات کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی۔
کہانی میں ایک نیا موڑ اس طرح بھی آیا ہے کہ امریکی امریکی انٹرنیٹ پرووائیڈرز ، ، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنا کردہ سنسرشپ کے جواب کے طور پر فیس بک اور ٹویٹر تک رسائی روک رہے ہیں ، جن کے اکاؤنٹ کو دونوں پلیٹ فارمز پر معطل کردیا گیا تھا۔

دریں اثنا ٹرمپ کے لیے ایک دلچسپ مشورہ سامنے آیا ہے ڈونلڈ ٹرمپ کو چاہئے کہ وہ ایک ٹک ٹوک اکاؤنٹ بنائے اور وہاں اپنے جذبات اور جذبات کا اظہار کرے کیونکہ ٹکِ ٹاک چینی ایپ ہے ۔ چین کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کے تعلقات شدید خراب رہے ہیں حتیٰ کہ جنوبی چین میں دونوں ملکوں کی فوجیں بھی آمنے سامنے رہی ہیں۔ صدر ٹرمپ کرونا وائرس کا ذمہ دار براہ راست چین کو ٹھہراتے آئے ہیں اور تجارتی جنگ عروج پر رہی ہے۔ اس لیے واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٹرمپ نے غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی وجہ سے خارجی اختلافات کے ساتھ ساتھ داخلی طور پر بھی اپنا مذاق بنوایا۔

3 thoughts on “امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عبرت کا نشان بن گئے”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *