دل شکستہ

In اسلام
January 10, 2021

دل شکستہ
غالبا آج سے بارہ برس قبل میٹرک کا امتحان پاس کر کے ایف اے میں ایڈمیشن لیا تو شاعری سےدل شغف رکھنے کے باعث اختیاری مضمون میں اردو ادب کا انتخاب کیا-

خوش قسمتی سے اردو ادب کی ٹیچر بھی انتہائی قابل اور پرکشش شخصیت کی ملی مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہےکہ انہوں نے پہلے دن ہی ہمیں اردو ادب کا تعارف اس انداز سے کروایا کہ ہم سب کو یوں محسوس ہوا کہ ہم نے اردو ادب کا انتخاب کر کے بہت بڑامعرکہ سر انجام دیا ہے اور ہم آج ایک نئی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں

اردو ادب میں ہمیں بہت سے قابل شعراء کی شاعری پڑھنے کا اتفاق ہوا لیکن شروع دن سے ہی اقبال کی شاعری سےمتاثر رہی ھوں کیوں کہ اقبال کی شاعری فرضی محبت سے ہٹ کرحقیقی سیاسی تہذیبی اور روحانی موضوعات پر مشتمل ہے-اسی اثنا میں بانگ درا کے مطالعے کے دوران یہ شعر زیرنظر گزرا:


 بچا بچا کے نہ رکھ اسے اسے تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیزتر ہے نگاہ آئینہ ساز میں

یہ شعر جب میں نے پڑھا تو مجھے اس کا مفہوم کچھ سمجھ میں نہیں آیا میں اس کشمکش میں پڑ گئی کے ایک ایسا شخص جو دل شکستہ رکھتا ہوں وہ کیسے عظیم تر ہو سکتا ہے تاہم قصہ مختصر یہ کہ مجھے یہ بات سمجھنی ھی اور قدرت نے مجھے یہ سمجھانا تھاابھی یہی کشمکش ختم نہ ہوئی تھی کہ ٹی وی پر ایک ایک روحانی پروگرام پر نظر پڑی – جس میں ایک بابا جی کہہ رہے تھے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے کسی نے پوچھا کہ اللہ کو کہاں تلاش کیا جائے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ٹوٹے ہوئے دلوں میں

مجھے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول اور اقبال کے شعر میں کچھ یکسانیت نظر آنے لگی اور جستجو اور بڑھنےلگی لیکن اس وقت میری تمام تر کوشش کے باوجود میں یہ بات مکمل طور پر سمجھ نہ سکی کیوں کہ اس وقت تک میں نے زندگی میں خوشیاں آرام اور سکون دیکھا تھا تاہم زندگی گزرنے لگے اور میں زندگی کی مصروفیات میں مگن ہوگی لیکن شاید جو بات میرے ذہن کے کسی گوشے میں بیٹھ گئی تھی قدرت نے مجھے وہ سمجھانی تھی اور مجھے اس مقام تک پہنچانا تھا کہ میں اپنے تمام خیالات کو قلمبند کر سکوں اور ایسا ہی ہوا

اللہ کا دستور ہے کہ وہ جس کو جب چاہے رہنمائی عطا فرما دے اور میرے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ طے پایا جب میں نے یہ شعر پڑھا تھا تب میں نے زندگی میں خوشیوں آرام اور سکون کے علاوہ کچھ نہ دیکھا تھا اور مجھے لگتا تھا بس ایک خوش پرسکون انسان اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک آدمی ٹوٹا ہوا غم کا مارا ہوا اللہ کے قریب ہوتا چلا جائےاور اپنے اللہ کی نظر میں عظیم تر ہوجبکہ وہ خود اندر سے ٹوٹا ہواھو

اور پھر کچھ یوں ہوا کے معاملات حالات اور خوشیاں سب مرحلہ وار مجھ سے دور ہوتی گئی کہ میں نے خود اپنے سامنے اپنی امیدوں کو ٹوٹتے دیکھا اورصرف ایک امید نہیں ایک کے بعد ایک اور اس کے بعد پھر ایک اوریہاں تک آخر میں اس موڑ تک پہنچ گئی کہ میرے پاس ایک ٹوٹے ہوئے دل کے سوا اور کچھ نہ تھا اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں اور کیسے اپنے آپ کو دوبارہ سے ایک مضبوط اور مستحکم انسان بنا سکوں

یوں سمجھیے کہ وہ موڑآ چکا تھا کہ میں اس دوراہے پرپہنچ چکی تھی کہ یا آر لگ جاؤں یا پار مکمل طور پر میں اندر سے ٹوٹ چکی تھی لیکن ان تمام حالات میں ،میں نے جس قدر قریب اپنے رب کو پایا اتنا قریب میں نے کسی کو نہ پایا میری جب جب کوئی امید ٹوٹتی تو مجھے تب تب ایک مضبوط سہارا ا اپنے اندر ہی محسوس ہوتا ہے اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب اور میں اپنے رب کے قریب سے قریب تر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اب میرے پاس صرف ایک راستہ تھا کہ میں آنکھیں بند کر لو اور اپنے اللہ سے پورے ایمان کے ساتھ دعا کرو میری کیفیت ایسی تھی جیسے سمندر کے درمیان ایک شخص آنکھیں بند کر کے اللہ پر پورا ایمان رکھتےہوئے اپنے آپ کو چھوڑدے اور میں نے بھی یوں کیااورپھر کیا تھا میرے اللہ پاک نے بھی مجھے سمندر کے بیچوں بیچ یوں نکال کر کنارے تک پہنچایا کہ میں خود بھی پریشانی کے عالم میں دنگ رہ گئی اور اچانک سے میرے کانوں میں وہی اشعر گونجا جو آج سے تقریبا 13 برس قبل میرے ذہن میں اٹک سا گیا تھا جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں اور تب میں جس کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھی

اور آج میں اس قابل ہو چکی تھی کہ اقبال کا یہ فلسفہ مکمل طور پر سمجھ سکو ل اور اس فلسفے کو سمجھنے میں مجھے غالبا تیرہ برس لگ گئےآخر میں شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول بیان کرنا بہت ضروری سمجھتی ہوں امید ہے کہ آپ کو میرا متن سمجھنے میں اور زیادہ آسانی ہو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں

جب اللہ کسی جسم میں داخل ہوتا ہے تو پہلے اس کو کو تباہ و برباد کرتا ہے ہے اور دل میں خواہشات اور آرزووں کے جو بڑے بڑے امرا بیٹھے ہوتے ہیں ہیں ان کے سر نیچے کر دیتا ہے ہے جب وہ اس بستی کو اچھی طرح اجاڑ لیتا ہے تو خود آپ آ کے بیٹھ جاتا ہے پھر یہ بستی ازسرنو آباد ہوتی ہے پہلے اس تعمیر کو ویران کر تے ہیں پھر اس تعمیر کو دوبارہ استوار کرتے ہیں یہی کار تصوف ہے یہی اللہ کا طریق ہے