کل کی خبر ہے کہ اسامہ ستی نامی 21 سالہ نوجوان کو پولیس نے ناکے پر گاڑی نہ روکنے پر گولیوں سے چھلنی کر دیا تقریباً 21 کے قریب گولیاں فائر کی گئی جس میں سے 17 کے قریب اس نوجوان کو لگی جس سے وہ شدید زخمی ہوگیابعدازاں اس کی موت واقعہ ہو گئی اب ذرا اس کے گھر والوں کے بارے میں سوچیے اسکی ماں باپ بہن بھائی ان پر کیا گزری ہوگی ایک نوجوان گھر سے دوست کو چھوڑنے گیا اور واپس اس کی خون میں لپٹی لاش موصول ہوئی یہ کسی چورڈاکو کا کام نہیں ہے بلکہ وہ محافظ جو ہمارے جان مال کے محافظ ہیں جن کے لیے ہم خون پسینے کی کمائی سے ٹیکس دیتے ہیں یہ کمال ان کی طرف سے ہوا ہے یعنی عوام کے جان مال کا تحفظ نہیں ہے رہبر ہی رہزن ہیں پھر ان اداروں کا کیا فائدہ ؟انسانی جان کی اتنی سی ہی وقعت ہے مان لیں اگر وہ دہشتگرد ہے تو آ پ کے پاس اور کوئی آ پشن نہیں اسکے پاس سے اسلحہ نہیں ملا کوئی ڈرگز نہیں ۔نہ اس نے کسی بھی پولیس والے کو کوئی نقصان نہیں یہنچایا .ایگ دو گولیاں بھی نہیں 21 گولیاں یہ تو بہت بڑا ظلم ہے رہی بات انصاف کی تو یہاں پچھلے چند ہی سالوں میں کچھ ایسے کیسز ہماری اور میڈیا کی نظر سے گزرے ہیں جن کے لواحقین کو آ ج تک انصاف نہیں مل سکا اور مجرم دندناتے پھر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں .ایک کیس نقیب اللہ محسود مشال قتل کیس ماڈل ٹاؤن سانحہ ساہیوال فہرست تو بہت لمبی ہے .یہ چیدہ چیدہ نام ہیں یہاں جس کے پاس پیسہ ہے یا طاقت ہے یا اسکی پہنچ ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے نہ اسکے لیے کوئی قانون ہے نہ کوئی ضابطہ قانون کی بالادستی وہاں ہوتی ہے جہاں قانون سب کے لیے برابر ہوں جہاں ادارے مظبوط ہوں اور جہاں قانون انغ کے تقاضوں کے عین مطابق بنا ہو ویسے بھی ہمارے انصاف کا نمبر 118 آ یا ہے 126 ملکوں کی فہرست میں اب ہمارے ملک میں انصاف کا اتنا فقدان کیوں ہے میں اس بات کا متلاشی ہوں شاید آپ بھی ہوں شاید کسی کو معلوم بھی ہو جسکو معلوم ہے وہ ہمیں بتا سکتا اگر میں اس کی تہ تک پہنچتا ہوں تو ضرور بلضرور آپ کے ساتھ تبادلہ کروں گا بہرحال ہم تو چاہتے ہیں کے لواحقین کو انصاف ملے ایک مثال تو قائم ہو ہم بھی فخر سے کہہ سکیں ہاں یار ہماری عدالتوں ہمارے اداروں نے بھی ایک انصاف کا فیصلہ کیا ہے.
Thursday 10th October 2024 8:59 pm