یہ وہ سنہری دورہے کہ اسلام کی سر بلندی کے لیے سلجوق سلطنت دل و جان سے کوشش میں لگے ہیں۔اور اس دور میں بہت سے مدارس نے بڑےنام پیدا کیے لیکن جو نام امام موافق کی مدرسہ نے پیدا کیا وہ کسی اور کےدرسگاہ نے حاصل نہیں کیا ۔کہا جاتھا ہے کہ اس مدرسہ سے تین دوست ایک ساتھ فارغ ہوئے اور یے ایسے دوست تھے جن کا کھانارہن سہن سب ایک ساتھ تھا ،جس میں دو ہم نام تھے حسن صباح اور حسن طوسی اور ایک عمر خیام۔
عمر خیام۔
عمر خیام ایک شاعرمحقق فلسفی عالم تھاجس نے تاریخ میں بے پناہ کارنامے کیے ہیں جن کانام آج بھی علم کی کتابوں میں یاد کیا جاتا ہے۔
حسن طوسی ۔
وہ ہے جو تاریخ کے اورا ق میں نظام المک کے نام سے یاد کیا جاتاہے ،جس نے سلجوق حکومت میں بے پناہ کارنامے کیے ہیں۔جس نے جہاد کی داستانیں قائم کی ہے۔
حسن صباح۔
حسن صباح ۔تاریخ کا وہ فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچائے ۔اور اس نے ایسے خطرناک کام کیے ہیں جس سے آج بھی انسان ڈر جاتاہے۔کیا یہ سچ ہے کہ یہ تینوں ایک ساتھ دوست تھے یہ قصہ بڑا مزیدار ہے لیکن اس میں حقیقت کی کوئ بات نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ ہے حسن طوسی جیسے نظام المک بھی کہا جا تاہے یہ حسن صباح سے ۳۲ سال بڑے ہیں تو یہ قصہ بالکل جھوٹ ہے ۔اور اس واقعہ کا ذکر }ایڈورڈ نے عمر خیام کی رباعیات {کے ترجمے کے دیباچے میں بھی کیا ہے( لیکن ہے بالکل جھوٹ
حسن صباح ۔ کی پوری تاریخ تو پڑ ھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ لیکن میں یہاں آپ کو کجھ واقعات کا ذکر کرونگا۔
حسن صباح کا پورا نام ۔حسن بن الصباح تھا اور ان کی پیدائش 1150 کی دہائی میں ایران کی شہر پیدا ہوئے ۔اور ان کا گھرانہ ایک شیعہ اسماعلیہ سے تعلق رکھتاتھا ۔اور حسن صباح خود کہتاہے ، کہ مجھے علم سے بڑی محبت تھی اور میں مذھبی رہنما بنا چاہتاتھا اور ایسا ہی ہوا کہا جاتا ہے کہ ایک بار حسن کے ملاقات امیر زرہ انب نامی اسماعیلی داعی سے ہوئی ، اور حسن صباح پراس کا بہت اثر ہوا وہ داعی بن گیا اور پھر اس کےساتھ مصر چلا گیا ۔ لیکن وہاں کا بادشاہ اس کا خلاف ہوا اور حسن صباح کوزندان میں ڈالاگیا لیکن زندان گرگیا اور وہ وہاں سے باہر نکلا،اور یہ بھی کہا جاتاہےکہ لوگ زندان کا گرنا حسن صباح کی کرامت سمجھنے لگے اور حسن کو باعزت رہاکردیا اس کی بعد وہ پھر ایران آگیااور اس نے مختلف علاقوں میں ۹ سال تبلیغ کیا اور انہوں نے اپنی مرکز دیلمان میں بنائے۔
قلعہ الموت۔
بظاہر ایسا لگتاہے کہ اس قلعے کا تعلق موت سے ہے لیکن یہ بالکل غلط ہے اور حقیقت یہ ہے الموت مقامی زبان میں الا ،اور آموت سے نکلاہے تو یے دیلمانی زبان میں ،عقاب کوکہاجاتاہے)اور آموت فارسی میں مطلب ہے (سیکھنا)
اور اس کے بارے میں مشہور ہے کہ جس نے قلعہ بنایاتھا اس نے یہ اس وجہ سے بنایا کہ اس جگہ پر شاہین بیٹھاتھا تو اس نے سوچاکہ اس جگہ پر قلعہ بنایاجائےتو اس کی محل و قوع بہت خطر ناک ہوگا کوئ اس کے پاس نہیں آئے گا ۔تو اس وجہ سے اس کا نام (قلعہ الموت رکھا)یعنی عقاب کاسکھایاہوا۔
تاریخ الدان ہمدانی ،جامع التاریخ میں لکھتے کہ ۳۵ برس تک حسن صباح اس قلعہ سے باہر نہ نکلا۔صرف ۳۵ سال میں دوبار باہر نکلاتھا
۱۰۹۲)میں سلطان ملک شاہ نے اس قلعہ پر حملہ کیا لیکن وہ اس قلعہ کے فتح ہونے میں کامیاب نہیں ہوا
جب حسن صباح کو معلوم ہوا کہ اس حملہ میں نظام المک کاہاتھ تھاتو اس نے اپنے پیروکارو سے کہا کہ کون ہمیں اس دنیاکو اس فتنہ سے خالی کردے گا،تو ایک نوجوان اٹھا اور ہاتھ بلند کیا کہ میں یہ کام کرونگا ۔اور اس کی بعد جاکر شیخ الجبال کے فرمان پر عمل کیا اور اس نے نظام الملک کو شہید کیا ۔اور خود بھی ان کےسپاہیوں سے ماراگیا۔
حسن صباح کا پہلا خودکش حملہ۔
یہ بات ظاہر ہے کہ یہ خود کش حملہ حسن صباح کی ایجادہے ،لیکن جس منظم طریقے سےانہوں نے کیا کسی اور نے نہیں کیا۔
مصنوعی جنت ۔
کہاجاتاہے کہ انہوں نے اس قلعہ میں ایک جنت بنایاتھا جس میں وہ نوجوان کو ایک جھلک دکھاکر پھر اس کو باہر نکال لیتےتھے اور کہتے کہ مسلمان کسی بڑے آدمی کو مارو پھر آپ اس جنت میں آؤگے اور ان کو خاص قسم کا نشہ دیا جاتا تو داعی پھر ہوش میں نہ رہتے۔
حسن صباح ۔کی داعی ۔
کہا جاتھا ہے ان کی جو داعی تھے وہ اتنا خطر ناک تھے ۔آپ اس کا اندازہ اس قصہ سے لگاسکتے ہیں ۔کہ ایک بار کسی ملک کی سفیر نے قلعہ دورہ کیا اور اس نے حسن کو اپنے سپاہیوں سے ڈرایا کہ میرے سپاہی اتنے خطرناک تھا ۔تو کہا جاتاہے کہ حسن سفیر کو قلعہ کے اوپر لے گیا اور اپنے ایک داعی کو اشارہ کیا کہ پہاڑ سے کودو تو وہ کودا،اور ایک کو کہا کہ اپنے پیٹ میں چرے ڈالو تو دونوں نے ایسا کیا
تو سفیر بہت ڈر گیا اور قلعہ سے چلا گیا ۔
وفات۔
حسن صباح کا انتقال ۱۲ جون ۱۱۲۴ کو ہوا اور اس کا نرینہ اولا د نہیں تھی اس نے اپنے ایک داعی کو امیر مقرر کیا ۔اور پھر آخر کار ان کی نائب کو ہلاکوخان نے ہلاک کردیا اور یہ فتنہ دنیاسے ختم ہوا لیکن آج کل بھی یہ دنیا میں رہتے ہیں۔