پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رواں ماہ کے آغاز پر ہونے والی کمی کے بعد وفاقی حکومت کے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اسے ’لاپرواہی پر مبنی فیصلہ‘ قرار دیا اور کہا کہ اس کے خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں۔
تاہم مفتاح اسماعیل کے اس تبصرے کے بعد رواں ہفتے وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ’مفتاح اسماعیل کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ مفتاح صاحب لوگوں پر بوجھ ڈالنے پر مطمئن ہو سکتے ہیں تاہم انھیں (اسحاق ڈار) پتا ہے کہ کیسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ڈیل کرنا ہے کیونکہ وہ گذشتہ 25 سال سے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرتے آ رہے ہیں۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کے فیصلے کے بعد مفتاح اسماعیل کی جانب سے کیا جانے والا تبصرہ پٹرول پر کم کی جانے والی پٹرولیم لیوی ہے جو قیمتوں پر نظر ثانی کے تازہ ترین جائزے میں پانچ روپے کم کر دی گئی۔ اس کی وجہ سے صارفین کے لیے پٹرول کی قیمت 12روپے فی لیٹر کم کر دی گئی تھی۔
پاکستان اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے جس کے تحت حکومت پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی وصول کرنے کی پابند ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کو اس وجہ سے ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے کہ اس نے آئی ایم ایف پروگرام کے شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پٹرول و ڈیزل پر پٹرولیم لیوی زیرو کر دی تھی جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا قرض پروگرام کئی مہینوں تک معطل رہا۔
مفتاح اسماعیل کے تبصرے اور اسحاق ڈار کی جانب سے اپنے فیصلے کے دفاع میں دیے جانے والے بیانات کے بعد آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے آیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انھوں نے کہا پاکستان کو (آئی ایم ایف سے کیے گیے) اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہو گا۔
آئی ایم ایف کو وضاحت کی ضرورت ہے۔
لیکن پاکستان میں آئی ایم ایف کی رہائشی نمائندہ ایستھر پیریز روئز نے کہا کہ حکومت نے اس سکیم کے بارے میں فنڈ سے کوئی مشاورت نہیں کی۔ روئز نے رائٹرز کو ایک پیغام میں میڈیا رپورٹ کی تصدیق کی ہے کہ فیول اسکیم سمیت چند باقی نکات طے ہونے کے بعد عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف حکومت سے مزید تفصیلات طلب کرے گا، بشمول اس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے گا اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا تحفظات رکھے جائیں گے۔
وزیر نے کہا کہ اس اسکیم سے حکومت کو کوئی اضافی لاگت نہیں آئے گی۔
‘آئی ایم ایف کے پوچھنے پر ہم یہ سب کچھ بتا سکتے ہیں،’ انہوں نے کہا، قرض دینے والا وزارت خزانہ سے رابطے میں تھا نہ کہ اس کا۔
وزارت خزانہ نے فوری طور پر تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
اسلام آباد نے معاہدے کی پیشگی شرائط کے طور پر روپے کی قدر میں کمی، سبسڈی ختم کرنے اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ سمیت متعدد اقدامات نافذ کیے ہیں، جس کے بارے میں وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ماہ ‘بہت قریب’ تھا۔