مگر میں تو ان کے نزدیک انسان بھی نہیں تھا!
عبدالقیوم فہمید
میں ایک قیدی ہوں، اس لیے یہ مجھے ایک انسان کے بجائے حیوان سمجھتےہیں۔ مُجھے انسانوں کےبرابر حقوق حاصل نہیں، بلکہ ان کےنزدیک میں تو ایک حیوان بھی نہیں ہوں۔ محض ایک بے وقعت جاندار ہوں۔ اگر یہ مجھے حیوان ہی سمجھتے تو کم سے کم حیوانوں کے برابر تو میرے ساتھ برتائو کرتے۔حیوانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ وہ حیوانوں کو اپنے ساتھ کھانے کھلاتے ہیں۔ ان کے لیے بیش قیمت مربے بناتے اور منگواتے ہیں۔ ان کی صحت کا ہرطرح سے خیال رکھتے ہیں۔ ان کی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان خوش نصیب جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے ہمارے جیسے کئی کم نصیب انسان مقرر ہیں۔
مجھے اس وقت ان کتوں، بلیوں، گھوڑوں اور دیگر پالتو جانوروں پر رشک آتا۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش میں کوئی پالتو جانور ہی ہوتا، میں انسان ہوں مگراپنی انسانی برادری میں میرا کوئی مقام نہیں ہے۔
یہ الفاظ ایک پاکستانی تارک وطن کے ہیں جس نے کئی سال اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے سات سمندر پار دیار غیر میں شب وروز کاٹے۔ وہ انتہائی کسمپرسی میں وطن واپس آیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اپنا وطن تو جنت ہے۔ یہاں پیسے کی ریل پیل نہیں مگر انسانیت کسی نہ کسی شکل میں زندہ ہے۔
دیار غیر میں اس کے ساتھ کیا بیتی؟ اس نے اپنے ساتھ برتے جانےوالے سلوک کی دلسوز اور دلخراش کہانی بیان کی۔ ہم اپنے اس پاکستانی بھائی کی کہانی کو قسط وار شائع کریں گے۔ اس نے بتایا کہ
ایک روز اس کے شدید بیمارہونے پر اس کے کفیل نے کہا کہ ‘کام کرو، میں تمہاری بیماری اور مرض کا ذمہ دار نہیں۔ تم مجھ سے پیسے لیتے ہو’۔ میں کچھ نہ کہہ سکا اور نڈھال اور لاغر جسم کے ساتھ اٹھا اور کچھ کام کرنے کی کوشش کی۔ مجھے ‘صاحب’ اور ان کے شہزادوں کے کپڑے دھونا تھے۔ میں نے واشنگ مشین آن کی، پانی، کپڑے اور سرف اس میں ڈالا۔ شدید بخار، سر درد اور اکتاہٹ کی وجہ سے مجھ سے کھڑا ہونا مشکل تھا۔ کوشش کے باوجود میں سنبھل نہیں سکا اور زمین پر گر پڑا۔ میں نیم بے ہوش تھا مالک نے مجھے گھیسٹا اور ایک ویران گودام میں لے گیا۔ وہاں پر شدید سردی تھی مگر مجھے بے ہوشی کی وجہ سے پہلے اندازہ نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد جب ہوش آیا تو میں گودام میں بھی نہیں بلکہ کتوں کے پنجرے میں تھا۔ میرے قریب تین لیبری ڈور نسل کے کتے تھے۔
میں نے پنجرے سے باہر آنے کی کوشش کی مگر باہر سے قفل کی وجہ سے میں باہر نہ آسکا۔ نحیف آواز کے ساتھ میں نے اہل خانہ کو بلانے کی کوشش کی۔ کافی آوازیں دینے کے بعد ‘صاحب’ تشریف لائے۔ ان کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔ میں نے انہیں ان کی زبان میں اس نا مناسب برتاؤپر شکایت کی تو اس نے کتے کے پا نی دان اٹھا کر میرے سر میں مارا۔
ہم نے اس پاکستانی ہم وطن کی شناخت اس جان اور عزت کی سلامتی کی خاطر مخفی رکھی ہے۔ اس نے یہ کہانی بیان کرتے ہوئے بار بار اپنے رومال سے اپنے آنسو پونچھے۔ اس کے درد کو محسوس کرنا مشکل نہیں تھا۔ اس کے ساتھ آگے کیا ہوا۔ یہ سب کچھ اگلی قسط میں سہی۔
Sunday 6th October 2024 1:16 pm