سندھ کے سابق دارالحکومت حیدرآباد کی نشانی پکا قلعہ کا مرکزی گیٹ منہدم ہوگیا ہے۔ محکمہ آثار قدیمہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دوران مرمت پیش آیا ہے اور تحقیقات میں معلوم کیا جائے گا کہ آیا یہ کسی کی غفلت کا نتیجہ تھا یا حادثہ۔سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا پکا قلعہ (جسے سندھی میں پکو قلعو کہتے ہیں) وسطی شہر میں موجود ہے جس کے سامنے یہاں کا قدیم بازار کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے۔
اسے 18ویں صدی میں اس وقت تعمیر کیا گیا جب یہ شہر اس نام سے وجود میں آیا تھا۔موجودہ دور میں ریلوے سٹیشن کے قریب واقع اس قلعے کے اندر مکانات اور باہر دیوار کے ساتھ ساتھ دکانیں بنی ہوئی ہیں۔ حکومت سندھ نے اس قلعے کو قومی ورثہ قرار دیا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ شہر کے اس اہم مقام کی دیکھ بھال نہ کی جاسکی اور اس کی حالت کافی خراب ہوچکی تھی۔
دیواروں کے سہارے گیٹ
سندھ کے صوبائی وزیر آثار قدیمہ اور نوادرات سردار علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ قلعے کی دیواروں کی سپورٹ پر یہ گیٹ موجود تھا۔ان کے مطابق ان دیواروں کے ساتھ باہر کی طرف دکانیں بنائی گئیں جس سے یہ دیواریں کمزور ہو رہی ہیں۔
’قدیم پاکستان‘ کا تصور آخر کتنا قدیم ہے؟
سردار علی شاہ کے مطابق ان کے محکمے نے دیواروں کے ساتھ اس دروازے اور میروں کے ’حرم‘ کی بحالی کا کام شروع کیا تھا۔ ’گذشتہ روز مرکزی گیٹ گرنے کا واقعہ حادثاتی طور پر ہوا ہے یا اس میں غفلت ہے، اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے۔‘
جب نیرون کوٹ کا نام حیدرآباد رکھا گیا
حیدرآباد کا پکا قلعہ کلہوڑا خاندان اور تالپور خاندان کے عروج و زوال اور انگریزوں کے قبضے کا گواہ ہے۔ماہرینِ آثار قدیمہ کے مطابق کلہوڑا خاندان نے خدا آباد، نصرپور سمیت دیگر علاقوں میں اپنے تخت گاہ بنانے کے بعد حیدرآباد کا رُخ کیا جہاں گنجے ٹکر (پہاڑی کا ٹیلہ) پر قلعہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ دریا کے سیلاب سے محفوظ رہا جاسکے۔سندھ کے تاریخ نویس ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں کہ نیرون کوٹ میں ایک قدیم قلعہ تھا جو ختم ہوگیا تھا۔ ’یہاں نئے قلعے کی تعمیر کے لیے کھدائی کے دوران کچھ انسانی ڈھانچے بھی نکلے۔‘ڈاکٹر بلوچ کے مطابق نیرون چھٹی صدی عیسوی میں رائے گھرانے کی حکومت میں برہمن آباد کے گورنر کے زیر انتظام تھا۔ ساتویں صدی میں اس کا حاکم ایک بدھ بھکشو تھا۔ فوجی اہمیت کی وجہ سے راجہ داہر کا بیٹا جئسینہ یہاں آتا تھا۔مرزا گل حسن ’نئی زندگی‘ جریدے میں لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کا پکا قلعہ مٹی اور چونے سے بنایا گیا تھا۔
’قلعے کی تعمیر کا کام شفیع محمد ملتانی اور دیگر کاریگروں نے مل کر کیا اور ان کی نگرانی مرزا احمد خراسانی کر رہے تھے۔ اس دور میں کاریگر کی اجرت دس پیسہ اور مزدوروں کی چھ پیسہ تھی۔‘وہ لکھتے ہیں کہ میاں غلام شاہ نے ایک دن محفل لگائی جس میں قلعے کی تعریف میں قصیدے پیش کیے گئے۔ شاعروں کو انعام سے نوازا گیا۔ اسی مجلس میں نیرون کوٹ کا نام حیدرآباد تجویز کیا گیا۔میجر جنرل ہیگ لکھتے ہیں کہ اب قبروں کو صاف کر کے میدان بنا دیا گیا تھا۔ میاں غلام شاہ کلہوڑو نے اس قلعے میں 1770 سے رہنا شروع کیا۔ سنہ 1772 میں ان پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کی موت ہوئی۔ ماہرین کے مطابق عام لوگوں کا اس وقت خیال تھا کہ چونکہ انھوں نے بزرگوں کی قبروں کو مسمار کیا، اس لیے ان پر بیماری کا حملہ ہوا۔
نقش نگاری والا گیٹ
’حیدرآباد کی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ لکھتے ہیں کہ قلعے کے داخلی دروازے کے لیے ایک بڑی محراب بنائی گئی تھی جس کے نیچے سنگ مرمر کی تختی لگائی گئی۔ اس تختی پر میاں غلام شاہ کا نام اور قلعے کی تعمیر کا سال 1182 ہجری تحریر تھا۔
ان کے بقول دروازے کے اوپر ایک اور چھوٹی محراب بنائی گئی تھی۔ ان محرابوں پر رنگین گل کاری کی گئی تھی جبکہ شاہی دروازہ ایک فٹ چوڑی لکڑی سے بنایا گیا تھا جس پر نقش نگاری کے ساتھ بڑی بڑی کیلیں لگی ہوئی تھیں تاکہ حملہ آور آسانی کے ساتھ داخل نہ ہوسکیں۔
قلعہ تالپوروں کے زیر انتظام
کلہوڑا خاندان کے بعد حیدرآباد اور اس کا قلعہ تالپور خاندان کے زیر انتظام رہا، جنھوں نے اس میں جہاں مزید عمارتیں تعمیر کیں وہیں اس کی رنگینی میں اضافہ کیا۔کتاب ’حیدرآباد کی تاریخ‘ کے مصنف حسین بادشاہ لکھتے ہیں کہ قلعے کے اندر میر نصیر خان نے ایک حویلی تعمیر کرائی جس میں دربار لگایا جاتا تھا جس کے آنگن، ستونوں اور اندرونی چھت پر نفیس نقش نگاری موجود تھی اور دیواروں پر تصاویر بنائی گئی تھیں جس میں مغلیہ طرز کی طرح میروں کے دربار کو دکھایا گیا تھا۔حسین بادشاہ نے اپنی کتاب میں جیمس برنس کا حوالہ دیا ہے، جس میں برنس لکھتے ہیں کہ ’میں کئی گلیوں سے ہوتا ہوا ایک کھلے صحن میں پہنچا جہاں کئی خوش پوشاک سندھی کھڑے تھے۔ میرے جوتے اتر گئے اور میں میروں کے سامنے پیش ہوا۔‘’میروں نے خوش نما لباس پہن رکھا تھا۔ وہ ایک شاندار کمرے کے کونے میں نصف گولائی میں بیٹھے تھے۔ کمرہ ایرانی قالین سے سجا تھا۔ مسند سفید رنگ کے ریشمی کپڑی سے بنی ہوئی تھی۔ اس کے پیچھے مخمل کا طویل تکیہ موجود تھا۔‘
’قلعے کے درمیان میں ایک ٹاور موجود تھا جو شاہی دروازے کے بالکل سامنے تھا جس کے اندر گول سیڑھیاں تھیں۔ شاہی دروازے کے قریب ٹکسال بنائی گئی جہاں سونے، چاندی اور تانبے کے سکے بنائے جاتے تھے۔‘
تالپور دور سے زبوں حالی کا آغاز
حیدرآباد کے اس قلعے کی صورتحال تالپور دور حکومت میں خستہ ہونا شروع ہوگئی تھی جس کا پتا خود انگریز فوجی افسران اور سیاحوں کی تحریروں سے ملتا ہے۔جیمس برنس لکھتے ہیں کہ قلعے کے دفاع کے لیے سپاہیوں کا ایک چھوٹا دستہ تعینات تھا۔ ’کئی قبیلوں کے سردار بھی مستقل قلعے میں رہتے تھے۔ وہ کسی خفیہ طریقے سے کچھ ہی دنوں میں اپنے قبیلے کے لوگوں کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔‘ہینری پاٹنجر لکھتے ہیں کہ قلعے کی دیواروں میں کئی سوراخ تھے جس کی وجہ سے توپوں کے ذریعے ایک دو گولوں سے قلعے کا کوئی بھی حصہ گرایا جاسکتا تھا۔ ’قلعے کی دیواروں پر ستر توپیں رکھی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے صرف آٹھ یا دس کارآمد ۔ہیں باقی صرف دکھانے کے لیے موجود ہیں۔‘الیگزینڈر برنس لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کی آبادی 20 ہزار تھی۔ ’لوگوں کی اکثریت جھونپڑیوں میں رہتی ہے جبکہ امیر کا اپنا گھر بھی عام سا ہے۔ قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے جس کے چاروں اطراف 10 فٹ اور 8 فٹ گہری کھائی ہے۔ قلعے کے اندر داخل ہونے کے لیے لکڑی کا پل بنا ہوا ہے۔’دیواریں پکی اینٹوں سے بنی ہیں جبکہ اونچائی 25 فٹ سے زائد ہے جو زبوں حالی کا شکار ہیں۔ سیم انھیں متاثر کر رہی ہے۔ اگر سیڑھیاں رکھ کر اس پر حملہ کیا جائے تو زیادہ دیر نہیں لگے گی۔‘
جب پکا قلعہ انگریزوں کی چھاؤنی بن گیا
حیدرآباد کے قریب میانی کے میدان میں تالپوروں کی فوجوں کو سر چارلس نیپیئر کی قیادت میں انگریز فوج نے شکست دی جس کے بعد اس قلعے پر قبضہ کرلیا گیا۔ انگریزوں نے میروں کو اسی قلعے میں قید کیا تھا۔اس قبضے کے فوری بعد لیفٹیننٹ ولیم ایڈورڈ نے 1846 میں یہاں کا رُخ کیا اور قلعے کے اندرونی اور بیرونی سکیچ بنائے۔وہ لکھتے ہیں کہ حیدرآباد کے قلعے کو سندھ کے مضبوط ترین مقامات میں تصور کیا جاتا ہے جس کی بنیاد1758میں غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی تھی۔ بقول ان کے، یہاں امرا کی رہائش تھی۔ ’قلعے کی اندرونی دیواریں چار سے پانچ فٹ چوڑی ہیں، چھتیں خوبصورت ہیں جن پر مختلف تصاویر پینٹ ہیں۔ تمام رہائش گاہیں خاص طور پر زنانہ میں بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے جنھیں ہٹایا دیا گیا ہے۔ لیکن ان کے فریم ابھی موجود ہیں۔ یورپی افسران نے اس کو چھاؤنی میں تبدیل کردیا ہے۔‘
حیدرآباد پکا قلعہ
ایڈورڈ لکھتے ہیں کہ قلعے کے وسط میں ایک بڑا ٹاور ہے جس سے چاروں اطراف پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ یہاں خزانہ رکھا جاتا تھا جس کی مالیت ’20 ملین سٹرلنگ سے کم نہیں تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ شہر میں چھوٹے پیمانے پر تجارت ہوتی ہے جو صرف اس شہر کی کھپت کے مطابق ہے۔مرزا گل حسن احسن کربلائی ’نئی زندگی‘ جریدے میں لکھتے ہیں کہ سنہ 1857 کی جنگ آزادی کے وقت قلعے کے اندر جو بھی عمارتیں تھیں انھیں منہدم کردیا گیا تھا اور زمین بارود خانے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔
قلعہ پناہ گزین کا کیمپ
قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد آنے والے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد نے اس قلعے میں عارضی پناہ لی جس نے مستقل شکل اختیار کرلی۔صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کے مطابق اس وقت 70 ہزار کے قریب آبادی اس میں مقیم ہے۔ انھوں نے قلعے کی دیواروں کے ساتھ گھر بنائے ہوئے ہیں جہاں سے نکاسی آب اس قلعے کو مزید کمزور کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں یہاں کے رہائشیوں کو لطیف آباد میں متبادل جگہ فراہم کی گئی تھی جن میں سے کچھ لوگ وہاں گئے اور اکثریت واپس آگئی۔ ’موجودہ وقت بھی حکومت سندھ انھیں دوبارہ متبادل جگہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ سندھ کے تہذیبی اور تاریخی ورثے کو بچایا جائے لیکن مقامی آبادی اس کے لیے راضی نہیں۔‘
پکا قلعہ آپریشن
کراچی کے بعد حیدرآباد متحدہ قومی موومنٹ کا سیاسی گڑھ رہا ہے۔ حیدرآباد میں لسانی بل کے معاملے پر متعدد بار لسانی فسادات ہوچکے ہیں۔ ان ہی فسادات کے دوران قلعے کے اندر میوزیم میں توڑ پھوڑ ہوئی اور اس کو آگ لگائی گئی۔سنہ 1986 میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے پکے قلعے میں پہلا جلسہ کیا تھا۔ 1990 میں جب آپریشن شروع ہوا تو پکے قلعے میں آپریشن کیا گیا۔اس آپریشن میں میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چالیس سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں جبکہ قلعے کے اندر ایم کیو ایم کی جانب سے بنائے گئی یادگار پر 64 افراد کے نام تحریر ہیں۔ان میں سے آٹھ نامعلوم ہیں۔ اس پر آج بھی الطاف حسین کا پیغام تحریر ہے اور موجودہ ایم کیو ایم پاکستان اپنی جماعت کے بانی سے علیحدگی کے بعد بھی اس دن کو مناتی ہے۔
Hyderabad Fort: The door of this centuries-old sign collapsed during repairs
The main gate of Paka Qila, a symbol of Hyderabad, the former capital of Sindh, has collapsed. The Archaeological Department says the incident took place during repairs and an investigation will determine whether it was the result of someone’s negligence or an accident. It is located in the central city, in front of which the ancient bazaar is spread for several kilometers.
It was built in the 18th century when the city came to be known by that name. Today, the fort, located near the railway station, is surrounded by houses and shops along the outer wall. The Sindh government had declared the fort a national heritage site but with the passage of time this important place of the city could not be maintained and its condition had deteriorated considerably.
Gates against the walls
Sindh Provincial Minister for Archeology and Antiquities Sardar Ali Shah told the BBC that the gate was there to support the walls of the fort. ۔
How old is the concept of ‘ancient Pakistan’?
According to Sardar Ali Shah, his department had started the work of restoring the gate and the ‘harem’ of the Mirs along with the walls. ‘Yesterday, the main gate collapse happened by accident or negligence. A committee has been formed to investigate this.’
When Neron Kot was renamed Hyderabad
The fortified fort of Hyderabad bears witness to the rise and fall of the Kalhora dynasty and Talpur dynasty and its occupation by the British. According to archeologists, It was decided to build a fort on the hill to protect it from flooding. Sindh historian Dr. Nabi Bakhsh Baloch writes that there was an ancient fort at Neron Kot which was destroyed. According to Dr. Baloch, Neron was under the administration of the Rai family in the sixth century AD, under the administration of the Governor of Brahmanabad. In the seventh century, its ruler was a Buddhist monk. Due to its military importance, Raja Dahar’s son Jasina used to come here.
The construction of the fort was done by Shafi Muhammad Multani and other artisans and was supervised by Mirza Ahmad Khorasani. In those days the wages of the artisans were ten paisa and those of the laborers six paisa. Poets were awarded prizes. In the same meeting, the name of Neron Kot was suggested as Hyderabad. Mian Ghulam Shah Kalhoro started living in this fort in 1770. In 1772 he suffered a stroke and died. According to experts, the common people at that time thought that because they demolished the graves of the elders, they were attacked by the disease.
Painting gate
Hussain Badshah, the author of ‘History of Hyderabad’, writes that a large mihrab was built for the entrance of the fort under which a marble slab was placed. The name of Mian Ghulam Shah and the year of construction of the fort were inscribed on this tablet.
According to him, another small mihrab was built above the door. The arches were decorated with colorful flowers, while the royal gate was made of one-foot wide wood with large carvings and nails so that the invaders could not enter easily.
Under the administration of Talpur Fort
After the Kalhora dynasty, Hyderabad and its fort came under the administration of the Talpur dynasty, which built more buildings in it and added color to it. Naseer Khan built a mansion in which a court was erected with exquisite carvings on the courtyard, pillars, and inner roof, and paintings were made on the walls which showed the court of the princes in Mughal style. Hussain Badshah Quotes James Burns in his book, in which Burns writes: My shoes came off and I appeared in front of the Mirs. ”The Mirs were wearing nice clothes. They were sitting in a semi-circle in the corner of a magnificent room. The room was decorated with Iranian carpets. The seat was made of white silk. There was a long velvet pillow behind it.
There was a tower in the middle of the fort, right in front of the royal gate, with a round staircase inside. A mint was made near the royal gate where gold, silver, and copper coins were minted.
From the Talpur period onwards
The condition of this fort of Hyderabad had begun to deteriorate during the Talpur period, the address of which can be found in the writings of British military officers and tourists. James Burns writes that a small contingent of soldiers was deployed to defend the fort. The chiefs of many tribes also lived in the permanent fort. He could secretly gather the people of his tribe in a matter of days. ‘ ۔ ‘There are seventy cannons on the walls of the fort, but only eight or ten of them are useful. The rest are there only for show,’ writes Alexander Burns. ‘Most of the people live in huts while the rich have their own house. The fort is built on a hill with a moat 10 feet and 8 feet deep on all sides. There is a wooden bridge to enter the fort. Sam is impressing them. It would not take long for it to be attacked with ladders.
When the fort became a British cantonment
The Talpur armies were defeated by the British army under Sir Charles Napier at Mayani plain near Hyderabad, after which the fort was captured. The British had imprisoned the Mirs in this fort. Immediately after this occupation, Lieutenant William Edwards moved here in 1846 and sketched the interior and exterior of the fort. Which was founded in 1758 by Ghulam Shah Kalhoro. According to him, this was the residence of the princes. The inner walls of the fort are four to five feet wide, the roofs are beautiful with various paintings on them. All the residences, especially the women’s, had large glass windows which have been removed. But their frames are still there. European officials have turned it into a cantonment.
Hyderabad fort fort
Edward writes that there is a large tower in the middle of the castle that can be seen from all sides. Treasures were kept here, valued at no less than 20 20 million. He says the city has a small-scale trade that depends only on the city’s consumption. Mirza Gul Hassan Ahsan Karbalai I write that during the War of Independence of 1857, all the buildings inside the fort were demolished and the land was used for ammunition.
Fort refugee camp
After the formation of Pakistan, a large number of refugees who came to Hyderabad took temporary shelter in this fort which became permanent. They have built houses along the walls of the fort from which drainage is further weakening the fort. He said that during the rule of Zulfiqar Ali Bhutto, the residents were provided alternative accommodation in Latifabad Some of them went there, and most returned. ‘Even now, the Sindh government is ready to provide them with an alternative place to save Sindh’s cultural and historical heritage, but the local population is not happy about it.’
Cooked fort operation
After Karachi, Hyderabad has been the political stronghold of the Muttahida Qaumi Movement. There have been several language riots in Hyderabad over the language bill. It was during these riots that the museum inside the fort was vandalized and set on fire. When the operation started in 1990, an operation was carried out in the fort. According to media reports, more than 40 people were killed in the operation. Eight are unknown. Altaf Hussain’s message is still written on it and the present MQM Pakistan celebrates this day even after its separation from its party founder.