مکہ سے شام جانے والے قافلوں کو راستے میں ایک ٹھکانہ ملا کرتا تھا جس میں اکثر قافلے رکتے تھے. اس ٹھکانے کا ناظم ایک بوڑھا عیسائی تھا جس کا نام بحیرہ ہے. 90 سال کی عمر تھی سارے بال سفید ہو چکے تھے اور تاریخ نے کہا کہ وہ بڑے ہو کر یوں جھکے ہوئے تھے آنکھوں پر سایہ کئے ہوئے نظر آتے تھے.خواجہ ابو طالب کا قافلہ جب ٹھکانے پر پہنچا اور پھر ایک گھنے درخت کے نیچے جا کر رو کش ہوا تو وہ بوڑھا راہب اپنے مسکن سے جو پہاڑ کے دامن پر بلائیں حصے پر تھا اتر کر نیچے آیا اس کے ہاتھ میں کچھ اوراق تھے.
اور وہ سیدھا خواجہ ابو طالب کے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک 12 سال کے بچے کے پاس آیا .جو اس قافلے میں شریک تھا اور پوچھتا ہے کہ یہ کس کا بچہ ہے خواجہ ابو طالب نے کہا یہ میرا بچہ ہے.اس بوڑھے ے راہب نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا پھر اس بچے کی طرف دیکھا پھر ورقوں کا مطالعہ کیا اور پورے اعتماد سے کہنے لگا یہ میری معلومات کے مطابق اس بچے کو یتیم ہونا چاہیے آپ کہتے ہیں کہ یہ بچہ آپ کا ہے. میں آپ کی بات مانوں یا آسمانی صحیفے کی بات پر یقین کرو میرے ہاتھ میں انجیل کے اوراق ہیں انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ اس بچے کو یتیم ہونا چاہیے.
خواجہ ابو طالب چونکا. کہنے لگا حیرت ہے کہ آپ یہ سب کچھ کیسے جانتے ہیں. بے شک یہ میرا بھتیجا ہے اور عرب ثقافت میں بھتیجے کو بھی بیٹھا کہا جاتا ہے بھتیجے بھی بیٹے کی جگہ ہوتے ہیں اس کا والد فوت ہوگیا ہے حضرت عبداللہ اور میں اس کو بیٹوں کی طرح چاہتا ہوں میں نے اپنی اس ثقافتی نسبت کی وجہ سے اسے اپنا بیٹا کہا یہ واقعی یتیم ہے حیرت ہے کہ آپ کو کیسے یقین آیا بحیرہ نے پھر وہی بات دہرائی کے میں نے ابھی کہا ہے کہ میرے ہاتھ میں انجیل کے اوراق ہیں
ابوطالب پوچھتا ہے کہ آپ کو اس بچے کی انفرادیت کے متعلق کیسے معلوم ہوا کہ آپ نیچے اتر کر یہاں تو آتے رہتے ہیں اور جاتے رہتے ہیں آپ کیوں نیچے اتر کر آئے اور آ کر آپ نے کیوں پوچھا؟اس پر بحیرہ راہب کہنے لگا
ہاں یہ ٹھیک ہے کہ یہاں کافلے آتے رہتے ہیں کچھ دیر کرتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں لیکن آنے والے قافلوں میں آج یہ پہلا قافلہ تھا کہ جس کو میں نے دور سے دیکھا اس قافلے پر ایک بادل کا ٹکڑا سایہ کئے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس قافلے میں کوئی غیر معمولی شخصیت شامل ہے لیکن مجھے یہ امتیاز نہیں ہو رہا تھا کہ بادل کا ٹکڑا کس کی وجہ سے سایہ کئے ہوئے ہے تو یہ بچہ کچھ دیر کے لئے آپ لوگوں سے ادھر ہوا تو میں نے دیکھا کہ بادل کا ٹکڑا اسی طرف ہو گیا
پھر چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ یہ بچہ آپ سے اس رخ پر ہوا تو بادل کا ٹکڑا اسی پر سایہ کئے ہوئے تھا مجھے اندازہ ہوا کہ یہی وہ شخصیت ہے جس کی وجہ سے تم سب کو اس تپتی ہوئی دھوپ میں سایہ میسر آیا
subhanAllah ….صلی اللہ علیہ وسلم
Subhanallah Hazoor Pak per behado hasab Drood aur Salam aur Salam Hazrat Abu Talib A.S. per Jinhon ne Nabuwat ko pala.