جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ پیغمبر خدا ﷺ کی بیٹی ،اور اپنے زمانے کی ممتاز خواتین سے تھیں ۔جمال ظاہری ،اور روحانی و اخلاقی اقدار اپنے والدین سے ورثہ میں پایا تھا ۔رسول اللہ محمد ﷺ کی دختر ہونے کی وجہ سے آپ کی ذات اقدس ،قریش و باعظمت ،شخصیات اور دولتمند حضرات کی نگاہوں میں مرکزِ توجہ تھی ،بعض حضرات نے اپنے لیے رشتہ تک بھیجا ،مگر رسول اللہ بلکل پسند نہیں فرماتے تھے مگر اسطرح فرماتے تھے کہ ان حضرات کو پتہ چل جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ ان سے خفا ہیں ۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے مخصوص کردیا تھا ۔اور آپ ﷺ چاہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس کی پیشکش کی جائے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیشکش :-
اصحابِ پیغمبر ﷺ نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ پیغمبر خدا کا دل چاہتا ہے ۔
کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا عقد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کردیں لکین حضرت علی کی طرف سے اس کی پیشکش نہیں ہو رہی تھی ۔
ایک دن جناب عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ،سعد بن معاذ وغیرہ ایک گروہ کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ،جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کے لیے رسول اللہ نے کسی کی بھی درخواست منظور نہیں کی ،اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا کا شوہر منتخب کرنا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے ۔ابھی تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جناب پیغمبر کی خدمت میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے رشتہ نہیں مانگا شاید میں سمجھتا ہوں کہ ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس اقدام کا نہ کرنے کی وجہ ان کا تہی دست ہونا ہے ۔
میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ اللہ اور پیغمبر نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے معین کر رکھا ہے ۔
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ ،نے جناب عمر رضی اللہ عنہ اور سعد رضی اللہ عنہ سے کہا اگر تم لوگ چاہتے ہو تو ہم مل کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں ،اور ان کے سامنے اس موضوع کو پیش کریں ،اور اگر وہ شادی کرنے کی طرف مائل ہوں اور تہیی دست کی بنیاد پر وہ شادی نہ کر رہے ہوں تو ہم ان کی مدد کریں ۔
آپ تینوں حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر آئے ،مگر انہوں نے آپ کو وہاں نہیں پایا معلوم ہو ا کے آپ ایک انصاری کے باغ میں اونٹ کے زریعہ ڈول کھینچ کر خرمے کے درختوں کو پانی دے رہے ہیں ،تینوں اصحاب حضرت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ،اور آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کہاں سے آرہے ہیں ۔اور میرے پاس کس غرض سے آئے ہو؟
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا علی رضی اللہ عنہ تم کمالات کے لحاظ سے ہر ایک سے بالاتر ہو ہم سب آپ کے مقام و رتبہ جو رسول اللہ ﷺ کو آپ سے ہے اس سے آگاہ ہیں ،بزرگان ،اور اشراف قریش حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگاری کے لیے جا چکے ہیں لیکن تمام لوگوں کی باتوں کو پیغمبر اکرم ﷺ نے رد فرمایا ہے ،اور یہ فرمایا ہے کہ جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کا شوہر معین کرنا خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے ہم گمان کرتے ہیں کہ خدا اور اس کے رسول نے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے لیئے مخصوص کیا ہے دوسرا اور کوئی بھی شخص اس سعادت پر افتخار کی صلاحیت نہیں رکھتا ،ہمیں خبر نہیں ہوسکی کہ آپ اس اقدام میں کیوں کوتاہی کر رہے ہیں ؟
حضرت رضی اللہ عنہ نے جب یہ گفتگو سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ،اور فرمایا ،اے ابو بکر رضی اللہ عنہ تم نے میرے احساسات ،اور اندرونی خواہشات کو ابھارا ہے اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے جس سے کہ میں غافل تھا ،خدا کی قسم تمام دنیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگار ہے اور میں بھی علاقہ مند ہوں جو چیز مجھے اس اقدام سے روکے ہوئے ہے وہ فقط میرا خالی ہاتھ ہونا ہے ، جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا یا علی رضی اللہ عنہ آپ یہ بات نہ کریں ،کیوں کہ پیغمبر خدا ﷺ کی نگاہ میں دنیا اور مال دنیا کی کوئی قیمت نہیں ہے ۔
میری رائے ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے آپ اس کام میں اقدام کریں ،اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کی خواستگار ی کی درخواست دیں ۔
اسلام کی بحرانی کیفیت اور مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی نے علی رضی اللہ عنہ کو اس دلی خواہش سے روک رکھا تھا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیشکش پر تھوڑا سا غور کیا اور اس معاملے کے تمام اطراف اور جوانب پر غور کیا ایک طرف آپ کا خالی ہاتھ ہونا اور اپنی اور تمام مسلمانوں کی اقتصادی زبوں حالی اور عمومی گرفتاری دیکھ رہے تھے ،اور دوسری طرف یہ بھی جان چکے تھے کہ آپ کے ازدواج کا وقت آ پہنچا ہے ۔
کیوں کہ آپ کی عمر 21سال یا اس سے زیادہ ہوچکی تھی ۔انہیں اس عمر میں شادی کرنا ہی چاہیے ،اور فاطمہ رضی اللہ عنہ جیسا رشتہ بھی نہ مل سکے گا اگر یہ سنہرا وقت ہاتھ سے نکل گیا ،تو پھر اس کا تدراک نہیں کیا جا سکے گا ۔
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیشکش نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روح کو اس طرح بیدار کردیا تھا کہ آپ کا اندرونی جزبہ محبت شعلہ ور ہوا ۔
اور آپ سے پھر اس کام کو آخر تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا جس میں آپ مشغول تھے ،آپ نے اونٹ اس کام سے علحیدہ کیا اور گھر واپس آگئے ،آپ نے غسل کیا اور ایک صاف ستھری عبا پہنی اور جوتے پہن کر جناب رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے ،پیغمبر اکرم اس وقت جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرما تھے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ جناب ام سلمہ رضی اللہ کے گھر گئے ،اور دروازہ کھٹکھٹایا ،پیغمبر اکرم نے جناب ام سلمہ رضی اللہ سے سے فرمایا کہ دروازہ کھولو ،دروازہ کھٹکھٹانے والا وہ شخص ہے جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں اور وہ خدا اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ،میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں کہ یہ کون ہے جسے آپ نے دیکھے بغیر اس قسم کا فیصلہ ان کے حق میں کردیا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا ۔
۔اے ام سلمہ چپ رہو یہ ایک بہادر اور شجاع انسان ہے جو میرا چچازاد بھائی ہے ،اور سب لوگوں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ھے جناب ام سلمہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور گھر کا دروازہ کھول دیا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کیا اور پیغمبر خدا کے سامنے بیٹھ گئے ،اور شرم کی وجہ سے سر نیچے کئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے کو ظاہر نہ کر سکے ،اور تھوڑی دیر تک دونوں چپ رہے ،اور آخرالامر پیغمبر اسلام ﷺ اس سکوت کو توڑا ۔
۔۔۔۔اور فرمایا یا علی ۔۔ گویا کسی کام کے لیے میرے پاس آئے ہو،کہ جس کے اظہار کر نے سے شرم کر رہے ہو ؟ بغیر ہچکچاہٹ کے اپنی حاجت کو بیان کرو اور مطمئن ہو جاو کہ تمہاری خواہش قبول کی جائے گی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ،میں آپ کے گھر میں جوان ہوا ہوں ،اور آپ کے لطف و کرم سے ہی مستفید رہا ہوں آپ نے میری تربیت میں ماں اور باپ سے بھی زیادہ کوشش فرمائی ہے اور آپ کے وجود مبارک کی برکت سے میں نے ہدایت پائی ہے یا رسول اللہ خدا کی قسم میری دنیا و آخرت کی پونجی آپ ہیں ۔
۔اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ اپنے لیے کسی رفیقہ حیات کا انتخاب کروں ،اور خانہ دار زندگی کو تشکیل دوں ،تاکہ اس سے مانوس رہوں ۔اور اپنی تکالیف کو اس وجہ سے کم کرسکوں اگر آپ مصلحت دیکھیں تو اپنی دختر جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کو میرے عقد میں دے دیں تاکہ جس سے مجھے ایک بہت بڑی سعادت نصیب ہو گی ۔
پیغمبر اسلام ﷺ اس قسم کی پیشکش کے منتظر تھے آپ کا چہرہ انور خوشی اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمایا کے صبر کرو میں فاطمہ رضی اللہ عنہ سے اس کی اجازت لے لوں پیغمبر اکرم جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا ،تم علی رضی اللہ عنہ کو بہتر جانتی ہو ،وہ خواستگار ی کے لیے آئے ہیں ۔
آیا تم اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا ان سے عقد کردوں ؟جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ شرم کی وجہ سے ساکت رہیں ،اور کچھ نہ بولیں ،پیغمبر خدا ﷺ نے آنجناب کے سکوت کو رضامندی کی علامت قرار دیا ،
پیغمبر ﷺ نے فرمایا اے علی رضی اللہ عنہ تم جلدی سے مسجد میں جاو ،میں بھی تمہارے پیچھے آ رہا ہوں ،تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کی تقریب اور خطبئہ عقد بجا لاو ۔
علی رضی اللہ عنہ خوش و مسرور مسجد روانہ ہوگئے ،جناب عمر رضی اللہ عنہ و ابوبکر رضی اللہ عنہ سے راستے میں ملاقات ہوگی ،تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا ،اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دختر مجھ سے تزویج کردی ہے اور ابھی میرے پیچھے آ رہے ہیں تا کہ لوگوں کے سامنے عقد کے مراسم انجام دیں ۔
پیغمبر خدا ﷺ جب کہ آپ کا چہرہ خوشی و شادمانی سے چمک رہا تھا مسجد میں تشریف لائے ،اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اے لوگو ،آگاہ رہو کہ جبرائیل رضی اللہ عنہ مجھ پر نازل ہوئے ہیں ،اور خداوند کریم کی طرف سے پیغام لائے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج کے مراسم عالم بالا میں فرشتوں کے حضور منقدکئے جا چکے ہیں ۔
اور حکم دیا ہے کہ زمین پر بھی یہ مراسم انجام دئے جایں ۔میں تم کو گواہ قرار دیتا ہوں ،آپ اس کے بعد بیٹھ گئے ،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھو اور خطبہ پڑھو ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے ،اور فرمایا کہ میں خداوند عالم کا اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی گواہی دیتا ہوں جو اس زات کو پسند ہو کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور ایسا درود ہو جناب محمد صلی اللہ رضی اللہ عنہ آلہ وسلم پر جو آپ کے مقام و درجہ بالاتر کردے ۔
لوگو ! میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج کو اللّٰہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے ۔اور اس کا دیا ہے میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہ کے ازدواج اللّٰہ راضی ہے ،اور اس کا حکم دیا ہے لوگو ! رسول اللہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کا عقد مجھ سے کردیا ہے اور میری زرہ کو بطور مہر قبول فرمایا ہے آپ ان سے پوچھ لیں اور گواہ ہوجایں ۔
مسلمانوں نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ سے کردیا ہے ؟
رسول اللہ نے جواب میں فرمایا ہاں ۔
تمام حاضرین نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ،اور کہا کہ خدا اس ازدواج کو تمہارے لیے مبارک قرار دے اور تم دونوں کے درمیان محبت اور الفت پیدا کردے ۔
حضرت زہرا رضی اللہ عنہ کا مہر :- ایک زرہ کہ جس کی قیمت 400سو یا 480یا 500 درہم تھی ۔
یمنی کتان کا ایک جوڑا ۔
ایک گسفند کی کھال رنگی ہوئی ۔
حضرت زہرہ رضی اللہ عنہ کا جہیز :-
رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ابھی اٹھو اور اس زرہ کو جو تم نے حضرت زہرا رضی اللہ عنہ کے لیے مہر قرار دی ہے یہ بازار میں جا کر فروخت کردو تاکے میں تمہارے لیے جہیز اور گھر کے اسباب مہیا کروں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ بازار گئے اور زرہ کو فروخت کیا مختلف روایات میں زرہ کی قیمت الگ الگ بتائی گئی ہے ۔واضع رہے کے بعض روایات کی بنا پر جناب عثمان رضی اللہ عنہ نے اس زرہ کو خرید لیا اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدیہ کردی
حضرت علی رضی اللہ عنہ زرہ کی قیمت لیکر پیغمبر اکرم کی خدمت میں پیش کردی ۔آپ ﷺ نے جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور کچھ درہم انہیں دے کر فرمایا کہ اس مقدار سے جناب فاطمہ رضی اللہ عنہ کے لوازمات اور اسباب زندگی خرید کر لاو اور اس میں سے کچھ درہم حضرت اسما کو دئے اور فرمایا کہ اس سے عطر اور خوشبو مہیا کرو اور جو درہم باقی بچے وہ جناب ام سلمہ کے پاس رکھ دئے گئے ۔
جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا جب میں نے درہم کو گنا تو وہ 63 درہم تھے اور اس سے میں نے یہ اسباب اور لوازمات خریدے ۔
ایک سفید قمیض ۔
ایک بڑی چادر سر ڈھانپ نے کے لیے یعنی برقعہ ۔
ایک سیاہ خبری حلہ
ایک چار پائی ،جو کجھور کے لیف سے بنی ہوئی ۔
دو عدد توشک ۔ایک میں گوسفند کی پشم بھری گئی ۔اور دوسری میں کھجور کے پتے ۔
چار عدد تکیے ۔جو گوسفند کے چمڑے سے بناے گئے تھے جن کو اذخر نامی خوشبو دار گھاس سے بھرا گیا تھا
ایک عدد چٹائی ۔ہجری نامی
ایک عدد دستی چکی ۔
ایک تانبہ کا پیالہ ۔
پانی بھرنے کے لیے ایک عدد چمڑے کی مشک ۔
کپڑے دھونے کے لیے ایک عدد تھال ۔
دودھ کے لیے ایک عدد پیالہ
پانی پینے کے لیے ایک عدد برتن ۔
ایک پشمی پردہ
ایک عدد لوٹا
ایک عدد مٹی کا برتن جسے صراحی (سبو)کہا جاتا ہے ۔
فرش کرنے کے لیے ایک عدد چمڑا
دو عدد کوزے
ایک عدد عبا ۔
جب جناب زہرارضی اللہ عنہ کا جہیز جناب رسول خدا ﷺ کے سامنے لے آئے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔اور سر کو آسمان کی طرف بلند کر کے فرمایا خدا اس شادی کو مبارک کرے جس کے اکثر برتن مٹی کے ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر کا اثاثہ ۔
ایک لکڑی کہ جس پر کپڑے اور پانی کی مشک ٹانگی جا سکے ۔
گو سفند کی کھال ۔
ایک عدد مشک
ایک عدد تکیہ ۔
ایک عدد آٹک
کتاب فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ اسلام کی مثالی خاتون ۔مولف آیت اللہ ابراھیم امینی ۔مترجم اختر عباس۔
Mash Allah informative