حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش 592 عیسوی میں ہوئی والد کا نام ولید بن مغیرہ جو تھا کہ عرب کے ایک مشہور سردار تھا۔ اور والدہ کا نام لبابہ صغیرہ تھا جو ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کے آباؤ اجداد کا تعلق بنو مخزوم سے تھا جو قبیلہ قریش ہی کی ایک شاخ تھی۔
آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا خاندان جنگ جوئ ، پہلوانی ، گھڑ سواری ، اور شمشیر زنی کا ماہر سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بچپن ہی سے نیز بازی اور تلوار چلانے میں مہارت رکھتے تھے۔ عرب میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی بہادری اور جنگ جوئی کے بڑے چرچے تھے۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے سخت دشمن تھے ۔ غزوہ احد کے موقع پر مسلمانوں کی ایک تیرانداز گروہ کو نبی علیہ السلام نے ہدایت کی تھی کہ وہ مسلمانوں کی فتح یا شکست کسی بھی صورت میں پہاڑی درہ چھوڑیں۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار میدان جنگ سے بھاگ کڑے ہوئے تو مسلمانوں کے تیر انداز گروہ نے بھی درہ چھوڑ دیا ۔ خالد بن ولید نے اپنے ساتھیوں سمیت خالی درہ سے مسلمانوں پر حملہ کرکے بہت سا جانی نقصان پہنچایا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کئی بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوئے ۔ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے میں مصروف تھے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے کئی بار حملہ کے لئے آگے بڑھے لیکن ہر بات ایک غریب کی طاقت نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا ہے جس پر انھیں یقین ہو گیا کہ نبی اکرم صلی وسلم اللہ تعالی کے سچے نبی اور رسول ہیں
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے 8 ہجری بمطابق 628عیسوی کو اسلام قبول کرلیا۔
اسلام عبور کرنے کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ساری قوت اسلام کے لیے صرف کی۔ کفار کے ساتھ جنگوں میں ہمیشہ بہادری اور جوانمردی کا مظاہرہ کیا انہوں نے تقریبا سو جنگوں میں حصہ لیا
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا معرکہ جنگ موتہ کا تھا ۔ اس جنگ میں مسلمان کی تعداد تین ہزار دی جبکہ کفار کا لشکر ایک لاکھ افراد پر مشتمل تھا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس جنگ میں بہت بہادری سے حصہ لیا اس دن آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں جس پر نبی اکرم صلی وسلم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو سے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا لقب دیا .
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور علیہ السلام سے بہت بڑی محبت تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ ہمیشہ ماضی کی اسلام دشمنی پر شرمسار اور رنجیدہ رہتے تھے اور نبی اکرم صلی وسلم سے معافی مانگتے رہتے تھے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم صلی وسلم کے موئے مبارک (سر کے بال )اپنی پگڑی میں رکھے ہوئے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بھی میدان جنگ میں اترتے تو وہی پگڑی سر پر سجا لیتے تھے اور اس پگڑی کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے ۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بہت سے جنگ میں حصہ لیا اور بہت سے لوگوں کو مارا ۔ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھاجس پر تلوار ،خنجر, نیزہ، یا تیر کے زخم کا نشان نہ تھا.میدان جنگ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ جذبہ شہادت لے کر جاتے تھے لیکن شہادت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نصیب میں نہ تھی۔ آخری وقت میں بھی آپ رضی اللہ تعالی نے کی یہ خواہش تھی کہ کاش میں بوڑھے اونٹ کی طرح نہ مرتا بلکہ میدان جنگ میں شہادت کی موت مرتا
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کا مزار ملک شام میں ہے