وزیراعظم کا فیصلوں کے دفاع کا عندیہ
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم اپنے وزراء پر بہت زیادہ برہم دیکھائی دئیے۔ عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ کابینہ میں ہر کسی کو مخالفت کا حق حاصل ہے لیکن اگر کابینہ کی طرف سے کوئی فیصلہ دے دیا گیا ہو تو کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ میڈیا یا کہیں اور اس کی مخالفت کرے۔ ہر وزراء کو ہر فیصلے کی اونرشپ لینا ہو گی اور ہر وزیر اس کا دفاع بھی کرے گا۔ اور اگر کوئی کابینہ کے فیصلے پر اختلاف رائے دے گا تو بہتر ہے وہ مستعفی ہو جائے۔ اگر پھر بھی یہی روش برقرار رکھی گئی تو میں خود یہ فیصلہ کروں گا کہ کس کو کابینہ میں رکھنا ہے اور کس کو نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی وزیر کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوتی اس لیے اگر کوئی فیصلہ ہو جائے تو پھر اس کی مخالفت نہیں ہونی چاہیے۔
وزیراعظم کا یہ بہت ہی اچھا فیصلہ ہے کیونکہ کسی بھی پارٹی کا ایک ڈسپلن ہوتا ہے ایک ڈائریکشن ہوتی ہے۔ کسی کو بھی کوئی حق نہیں کہ اگر کابینہ میں ایک فیصلہ ہو جاتا ہے تو بعد میں اس کی مخالفت کی جائے۔ کابینہ میں اگر کسی بات پر کوئی ڈسکشن ہوتی ہے تو وہیں اپنی اختلاف رائے کا اظہار کریں بجائے اس کے کہ فیصلوں کے بعد دی جائے جس سے پارٹی پر سوال اٹھیں اور اپنی ہی پارٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ کابینہ میں کوئی غلط پالیسی بنائی گئی یا حکومت اپنے دعوؤں وعدوں سے مکر رہی ہے یا پارٹی غلط سمت میں جا رہی ہے اور آپ کی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تو بہتر ہے آپ ریزائن کر دیں لیکن اس طرح میڈیا پر آ کر حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنا یا تنقید کا نشانہ بنانے کا کوئی تک کوئی جواز مجھے تو نظر نہیں آتا۔اور شائد اسی لیے ندیم افضل چن نے استعفیٰ دے دیا ہو کیونکہ وہ ٹوئٹر پر حکومت پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ اب میں تو سوچ رہا ہوں کہ فواد چوہدری کا کیا بنے گا۔ وہ بھی تو کافی بڑے بڑے دبنگ بیان دینے ہیں اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔تو ایسے میں ان کے لیے ضرور مشکلات بڑھیں گیں۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ وزیراعظم کو اپنے وزراء کے لیے ایسا بیان دینا پڑا؟ تو میری ناقص رائے کہ مطابق چوں کہ کابینہ میں بھانت بھانت کے لوگ ہیں جو اس کی سب بڑی اور بنیادی وجہ ہے۔ مطلب کابینہ میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جن میں حکومتی پارٹی اور مختلف جماعتوں کے اتحادی بھی شامل ہیں۔ اس طرح ہر کسی کا اپنا اپنا مفاد ہے، اپنا اپنا نظریہ ہے، اپنی اپنی سوچ ہے اور الگ الگ ترجیحات ہیں۔ اور پھر اس مجموعہ سے کیا توقع کی جا سکتی ہے جہاں پر سب کو اپنا مفاد مقدم ہو جس کے تحت وہ فیصلے کی مخالفت یا حامی ہوں گے۔
اور آخر میں، میں اس بات پر حیران ہوں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ وزیراعظم پاکستان کو یہ باور کروانا پڑھا کہ وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کو کابینہ میں رکھنا ہے اور کس کو نہیں۔ کیا ایک گھر کے سربراہ کو یہ بتانا پڑھے گا کہ وہ اس گھر کا سربراہ ہے؟ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مجھ پیاس لگی ہو تو میں پانی ہی پیئوں گا ناں کھانا تو نہیں کھاؤں گا۔ وزیراعظم تو کسی کو کابینہ میں رکھنے میں تو خود مختار ہیں پھر یہ کہنا تشویشناک ہے اس سے تو یہ لگتا ہے جیسے فیصلے کوئی اور کروا رہا ہے۔ اگر کوئی اور نہیں کروا رہا تو پھر کیا وجہ تھی یہ بات کرنے کی؟
پاکستان زندہ باد