عالمی استعماری نظام کے منصوبہ سازوں نے اپنی حکمت عملی میں مذہب کے استعمال کو خصوصی حیثیت دے رکھی ہے۔ جس کے تحت وہ ایسے معاملات (ISSUES)کو ابھارتے ہیں جس سے جذبات میں شدت پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں ناخوشگوار واقعات جنم لیں تاکہ مغربی معاشروں میں مسلط سرمایہ داری نظام کے تحفظ کے لئے رائے عامہ میں احساس زندہ رکھنے کی فضاء سازگار بنائی جاسکے اور مغرب کے عوام کو احساس دلایا جائے کہ ان پر حکومت کر نے والا نظام در حقیقت انہیں شدت پسندی، قتل و غارت، تنگ نظری اور جمود کی حامل قوتوں سے مقابلہ کررہاہے اور انہیں آزادی، امن اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے جدوجہد کررہا ہے۔ یوں وہاں کے عوام کو خواہی نخواہی اپنے نظام کی دیگر بنیادی خرابیوں سے نظریں ہٹانی پڑجاتی ہیں اور اسی کے ساتھ مغرب میں رونما ہونے والے واقعات و خیالات کے ذریعہ مسلم معاشروں میں ردعمل کی فضا بنائی جاسکے اور نتیجتاً مسلم معاشروں میں ایسے رجحانات کو کمزور کیا جاسکے جو مستقل بنیادوں پر آزادی، ترقی،امن اور انسان دوستی پر مبنی اسلامی اقدار کے نظام کے قیام پر مبنی ہو اور ان کی جگہ تشدد، جمود، مظاہر پرستی،فرقہ واریت اور تنگ رویوں پر مبنی غیراسلامی اقدار کو مذہبی لبادہ اوڑھ کر مسلط کر نے کے رجحانات کو مضبوط تر کیا جاسکے تاکہ مسلم معاشرے پسماندگی سے دوچار رہیں اور ان کے وسائل پر امریکی و یورپی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم رہے۔
کس قدر افسوس نا ک صورتحا ل ہے کہ مغرب کی یو نیورسٹیوں اور لیبارٹریوں میں تیار ہونے والے منصوبوں کی تجربہ گاہ تیسری دنیا اور بالخصوص مسلم دنیا ہے۔چنانچہ مغربی استعمار اپنی جدید اسلحہ کی جانچ پرکھ مسلم آبادیوں میں قتل وغارت کے ذریعہ کرتا ہے اس کے لئے فلسطین سے افغانستان تک علاقہ میں مسلم امہ کا خون بے دریغ بہایا جارہا ہے اسی طرح اس کے نظریہ ساز ادارے بھی اپنے تصوراتی منصوبے، مسلم امہ کی بے شعور سیاسی ومذہبی قیادت کے ذریعہ پرکھتے رہتے ہیں۔
مسلم حلقوں میں امریکہ اور مغرب سے ان کی پا لیسیوں کے سبب بے زاری کے جذبات تو پائے جاتے ہیں اور ان کے اظہار میں شدت، بسا اوقات اسلحہ کے استعمال تک بھی بات پہنچ جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان تک بھی مارے جاتے ہیں مگر اس سے کسی صورت عالمی استعمار کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اس کے مفاد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ دشمن کی حکمت عملی کا سمجھداری کیساتھ بھر پور جواب ضروری ہے یا اپنے مشتعل جذبات کا بے لگام اظہار ضروری ہے، مؤخرالذکر راستے کو اختیار کرنے سے ایک گونہ تسلی ضروری ملتی ہےاور انسانی جانوں کی تلافی سے جذبہ شہادت کو بھی بظاہر تقویت حاصل ہوتی ہے مگر یہ راستہ کسی صور ت اجتماعی کامیابی کی طرف نہیں جاتا۔
آج سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم دنیا سمیت تیسری دنیا کے وسائل اور اختیارات پر قابض عالمی استعماری نظام کی حکمت عملی کا ادراک وشعور حاصل کیاجائے۔ اس کے بچھائے ہوئے جال سے اپنے دامن فکر وعمل کو بچا کر آگے بڑھنے کی حکمت کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ عالمی استعمار کے پاس کئی رشدی ہیں۔ لہٰذا ایک ایک رشدی پر ساری توانائی صرف کرنے کی بجائے اُن کو جنم دینے والے نظام کے تانے بانے کو سمجھا جائے اور اس نظام کی بیخ کنی کی مؤثر حکمت عملی اپنائی جائے۔بصورت دیگر بےسمت بھاگ دوڑ اور جزوی مقصد کی حامل جدوجہد میں ساری توانائیاں اور قربانیاں پیش کردینے کے باوجود نتائج کسی طرح حوصلہ افزا نہ ہوں گے۔