سال 2020 کو اگر کسی خوف ناک خواب کی تعبیر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ مہض ایک چھوٹے سے وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کا کاروبار حیات تھم کے رہ گیا۔ ویسے تو تمام شبئعہ ہائے زندگی کو کرونا نے متاثر کیا لیکن سب سے زیادہ متاثر شبئعہ تعلیم ہوا۔ سال 2020 تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے سب سے بدترین سال نظر آتا ہے۔
پہلے تو کرونا وائرس کے سبب 15 مارچ 2020ء سے پندرہ روز کے لیے ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے۔اور اس کے بعد ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ تعلیمی ادارے کھولنا نا ممکن نظر آنے لگا۔ اور پھر اچانک ہی مغرب کی طرز پرآن لائن طرزِ تعلیم سامنے لایا گیا۔ یہ بھی نہ سوچا کہ یہ نظام تعلیم بینادی ضرورتوں سے محروم عوام کے لیے سود مند ثابت ہوگا بھی کہ نہیں۔ خیر پہلے کونسا اس ملک میں غریب عوام کے بارے میں سوچ کر فصلیہ کیا جاتا ہےجو اس معاملے میں کیا جاتا۔
خیر پھر ہوا یوں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچے تو پورا سال ہی تعلیم و تربیت سے محروم رہے مگر ساتھ ہی ساتھ نجی تعلیمی اداروں اور کمیرج سسٹم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بھی تعلیم سے دور ہو گئے کہ آن کیمپس نہ ہونے کے باعث احساس ذمہ داری،اساتذہ کا خوف بلکل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
زیادہ تر گھروں میں یہی دیکھا گیا ہے کہ کلاس جوائن کرنے کے بعدطلبہ کمیرہ آف کر کے سو گئے یا پھر دیگر سوشل ایکٹیویٹیس میں مصروف ہو گئے۔
آن لائن طرزِ تعلیم کا ہائی کلاسزز میں تو پھر بھی کچھ فائدہ نظر آتا ہے۔ مگر پرائمری لیول پر اسکا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ الغرض کہ کرونا اور آن لائن طرزِ تعلیم نے ہماری نوجوان نسل کو تعلیم سے دور کر دیا ہے۔ وہ وقت جب ہمارے بچوں کے ہاتھوں قلم ہونا چاہیے تھا اس آن لائن سسٹم نے ان کے ہاتھوں میں آن لائن کلاس کے نام پر ۔ tab, Android فون پکڑا دیئے ہیں۔ طلبہ پر استاد کی شخصیت کا کوئی رعب نہیں رہا۔ استاد کی حیثیت ثانوی سی ہو کر رہ گئی ہے۔
الغرض کہ کرونا انسانوں کے ساتھ ساتھ نظام تعلیم کو بھی نگل ہے۔
2020ء تو اسی خوفناک خواب کے ساتھ گزر گیا مگر 2021ء میں بھی کچھ بہتری کے آثار نظر نہیں آتے۔
کورنا ایک خدائی آفت ہے اور اس آفت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔