آج ہم جس ملک کو افغانستان کے نام سے جانتے ہیں اس علاقے کو ایک ملک کی پہچاں دینے والا شخص احمد شاہ ابدالی جو اس دنیا کا ایک عظیم فاتح تھا 1722 میں افغانستان کے شہر حیرات احمد شاہ ابدالی پیدا ہوے انہوں نے کم عمری میں ہی ایک جنگ میں حصّہ لیا لیکن بد قسمتی سے جنگ کے دوران مخالفین کے ہاتھے لگ گیا ان کو ایک قلعے میں بند کر دیا کچھ ارصے بعد فاتح ایران نادر شاہ نے اس قلعے کو فتح کر لیا اس طرح نادر شاہ سے ان کی ملاقات ہوئی نادر شاہ نے انکو اپنے خدمت گاروں میں رکھ لیا۔
جب نادر شاہ کو اسکے معافزین نے قتل کر دیا جہاں بہت سی قوتوں نے خود مختاری کا اعلان کیا افغانی بھی ان میں ایک تھے افغانیوں نے اپنا جرگہ منعقد کر کہ ایک صوفی صابر شاہ ملنگی اور 24 سالہ احمد شاہ ابدالی کو اپنا سربراہ مقرر کیا احمد شاہ ابدالی حکمران تو بن گیا لیکن اسکے پاس نہ تو سپائی تھے نہ محل انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ قندھار شہر پر حملہ کیا اور اسے آسانی سے فتح کر لیا احمد شاہ ابدالی کی خوش قسمتی تھی کے ایک قافلہ جو لاہور سے نادر شاہ کے لیے تحائف لے کر انکو نادر شاہ کی وفات کا پتہ نہیں تھا احمد شاہ نے ان پر حملہ کر دیا اور سب مال اپنے سرداروں اور سپائیوں میں تقسیم کر دیا۔
عسکری قوت حاصل کرنے کے بعد 1748 میں احمد شاہ ابدالی پہلی بار ہندوستان پر حملہ اور ہوے لاہور کے ایک صوبیدار میر منوں نے کچھ ارصے تک ان کو حملے سے روکے رکھا لیکن اس کی موت کے بعد احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر بہت سے حملے کیئے۔
1756 میں دلہی مغلیہ حکومت جو نادر شاہ کے حملوں کو بھول کر دوبارہ عیش و نشاط کی محفلوں میں مصروف تھی ایسے ایک بار پھر احمد شاہ ابدالی نے تخت تیراج کیا مغلیہ حکومت کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی باقی مسلمان حکومتیں کمزور خود غرض ہو چکی تھیں ہندوستان کے جنوب سے ابھرتے مڑھٹے حملے کے خواب دیکھنے لگے۔
1759 میں مرہٹھے تخت پر قابض ہو گئے اور بادشاہ عالمگیر ثانی کو معذول کر دیا گیا اتنی یلغار کے بعد اٹک پہنچنے پر مرہٹھوں کے پیشواء نے اعلان کیا کہ جامعہ مسجد دہلی میں مہادیو کہ بت نصب کیا جائے گا۔
تب شاہ والی اللّه نواب شجاع دوعلہ نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا اور مراہٹھوں سے آزادی دلانے کی درخواست کی 1761 کو احمد شاہ ابدالی اپنا لشکر لے کر نکلے پانی پت کے مقام پر مراٹہھوں سے جنگ ہوئی لاکھوں کے لشکر کو احمد شاہ ابدالی نے شکست دی اس میں مراہٹھوں کا پیشوا سدا شیو راؤ بہاؤ اور باقی اہم لوگ مارے گئے۔
تحریر ::ملک جوہر