اسلام میں تعلیم کے لئے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی اگر فرد بچپن میں تعلیم حاصل نہ کرے تو زندگی کے کسی بھی حصے میں تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ شروع
کر سکتا ہے۔ حکم دیا کہ ( ماں کی گود سے قبر کی گود تک علم حاصل کرو۔)
اسلام سلامتی کا مذہب ہے جس میں تعلیم کے حصول کو فر ضیت کادرجہ دیا گیا ہے۔مرداور عورت دونوں کے لئے تعلیم کو لازمی قراردیا گیا۔تعلیم سے ہی انسان
اپنے مذہب اور عقیدےسے آگاہ ہوتا ہے۔ اسلام کے مقاصد کی تکمیل بھی تعلیم وتربیت سے ہی ممکن ہوتی ہے۔اسلامی تصور کے مطابق تعلیم وہ عمل ہے جس
کے ذریعے طلبہ میں خداشناسی اور خوف خدا پیدا کیا جا تا ہے۔
علم کے ذریعے اپنی زندگی کواللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطا بق گزارنا سکھایا جا تا ہے۔اسلام کے نزدیک علم سب سے بڑی دولت ہے جو کم نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کو
مہیا کرنےسے اس کے ذ خائر میں اضا فہ ہو تا رہتا ہے۔اسلام میں تعلیم کے معا ملے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی۔
حکم یہ ہے کہ (علم حاصل کرنا ہر مرد عورت پر فرض ہے) اس حکم سے یہ ظا ہر ہوتا ہے کہ دیگرفرائض کی طرح بچوں کی بہترین تعلیم و تر بیت بھی فرائض میں
شامل ہے۔ اس لئے لڑ کو ں اور لڑ کیوں کو برابری کی بنیاد پر تعلیم کو مواقع ملنے چا ہیے۔
اکژ گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم کی حوصلہ شکنی کی جا تی ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔اسلام نے تعلیم وتربیت کے سلسلے میں والدین کو ذمہ دار
ٹھہرایا ہے۔
ما ں با پ وراثت میں دو چیزیں چھوڑتے ہیں۔ (1)مال ودولت و جا ئیداد (2) تعلیم وتربیت، اسلام نے تعلیم و تربیت کو اہمیت دی ۔ اس سلسلے میں حکم ہے کہ
( والدین کا بہترین عطیہ اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت ہے)
علم کو اس طرح تلاش کیا جائے جس طرح کوئی قیمتی چیز ڈھونڈی جا تی ہے اور محنت مشقت کے بعد حا صل ہو تی ہے۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ علم کے لئے عمر کی کو ئی حد مقررہ نہیں۔