Skip to content

قدیم بائبل کے مذاہب اور اس کو بین نہرین کہنے کی وجہ

دریائے دجلہ و فرات کے درمیان واقع علاقہ کو بین نہرین کہا جاتا ہے۔ بین نہرین یا بابل انسانی تھذیب و تمدن کا ایک عظیم گہوارہ رہا ہے۔ قدیم اقوام کی طرح بین نہرین میں بھی دین کی طرف رجحان موجود تھا۔مختلف خداؤن کی عبادت کی جاتی تھی، گوناگوں اعتقادات کی وجہ سے تصادم اور ٹکراؤ بھی رہتا تھا، دولت کی ریل پیل نے بعض شہروں کے عوام میں اخلاقی بگاڑ پیدا کردیا تھا۔ لیکن اسکے باوجود وہاں دین کا رجحان موجود تھا۔
اور دوسری اقوام کی طرح یہاں بھی خداؤن کا وجود تھا ۔ یہاں پر توتم پرستی وسیع پیمانی پر پائی جاتی تھی اس لئے یہاں کے لوگ عقاب،بیل اور شیر کا بہت احترام کرتے تھے۔اور یہاں پر روح پرستی کا رجحان بھی بہت تھا یہاں کے باشندے روح کو بہت مقدس شمار کرتے تھے اور ان کے اعتقاد کے مطابق سورج ،چاند،ستارے، وغیرہ ارواح کے رہنے کی جگہیں ہیں۔ اور یہ انسانوں کے لئے خداؤں کی صورت میں رونما ہوتے ہیں۔ اور ان کے ہاں دوقسم کی ارواح کا تصور تھا ایک نیک روحیں اور دوسری بدکار روحیں،بدکارو روحیں انسان سے طاقتور اور خداؤن سے کمزور سمجھی جاتیں تھیں اسلئے ان ارواح سے بچنے کیلئے اپنی عبادت گاہوں میں مختلف اعمال بجا لاتے تھے۔
بین نہرین یا قدیم بابل میں بھی قدیم مصر کی طرح خداؤں کی کوئی کمی نہی تھی چنانچہ آشوریوں کے بارے میں ملنے والے ایک کتبے میں تقریبا ایک ہزار خداؤں تک کی تعداد لکھی ہوئی ہے۔خداؤں کے بارے میں ان کا اعتقاد تھا کہ خدا ابھی انسانوں کی طرح غضبناک اور خوش ہوتے ہیں۔اور مادی خواہشات کا رجحان اان میں بھی موجود ہوتا ہے۔
بین نہریں کے شہروں کے علیدہ علیدہ خدا ہوتے تھے۔بابل شہر کا خدا مردوخ تھا، چنانچہ جب اسکندر اعظم نے بابل فتح کیا اور شہر میں داخل ہوا تو لوگوں نے اسکا استقبال کیا تو سکندر اعظم نے بھی ان کی دلجوئی کیلئے ان کے خدائے مردوخ کا خصوصی احترام کیا۔
اور بین نہرین میں خداؤں کی اولاد کے بارے میں عقیدہ تھا کہ جو بادشاہ ہیں وہ خدا کی اولاد ہیں جو زمیں میں کھیتی باڑی کو فروغ دیتے ہیں اور زمین کو سرسبز و شاداب بناتے ہیں۔ بین نہریں کے لوگ مذھبی حوالے سے کچھ امو کو انجام دیتے تھے جو ان کا فریضہ تھا اور خصوصی فریضہ یہ تھا وہ خداؤں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔اور اکثر اوقات انسان کو خداؤں کیلئے قربان کیا جاتا یا کبھی گوسفند کو ذبح کرکے خدا کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *