Skip to content

سلسلہ صحابہ میں وفات پانے والے آخری دس صحابہ کرامؓ کا تحقیقی تذکرہ

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وہ مقدس ہستیاں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب و آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت، ہم نشینی اور نصرت کے لئے چنا تھا۔ پیغمبر خدا کی ہم نشینی اور صحبت سے بڑھ کر اس دنیا میں کوئی نعمت نہیں، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو تمام نعمائے ارضی سے بڑھ کر ہے۔ صحابہ کرام ؓ کتاب اللہ و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھے، اوردین اسلام کو دنیا کے سامنے بطورِعملی نمونہ پیش کرنے کا ذریعہ یہی قدسی نفوس تھے۔

علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ صحابہ کرامؓ تمام کے تمام عدول ہیں۔ دینِ حق کے باب میں دیانتداری، عدل و انصاف، ایثار و قربانی اور بہادری و شجاعت کی امثال جس قدر صحابہ کرامؓ نے اس اُمت کے سامنے پیش کیں، کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں میں اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں۔ اسلام کے پیغام کو چار دانگ عالم میں نشر کرنے کے لئے ان برگزیدہ ہستیوں نے اپنا تن من دھن قربان کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تربیت یافتہ اور صحبت یافتہ افراد تاریخ ِ اسلام کا ایسے سپوت ہیں کہ اگر ان کا وجود نہ ہوتا تو عیسائیت کی طرح کئی “ پولوس” قلعہ اسلامی میں نقب لگا کر اس کا حلیہ بگاڑ چکے ہوتے۔ لیکن ان پاسبانِ اسلام نے عبداللہ بن سبا اور مسیلمہ کذاب جیسے نقب زنوں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بن کر ان کے مذموم اور مسموم ارادوں کو خاک میں ملایا اور ان جیسے فتنہ سازوں کوآخر کار منہ کی کھانی پڑی۔ تاریخ اسلام اور عالم اسلام کو ان عظیم ہستیوں پر ہمیشہ فخر رہے گا اور ان کا تذکرہ مسلمانوں کے لئے ایمان کی تازگی اور شگفتگی میں اضافے کا سبب بنے گا۔

اس مضمون میں صحابہ کرامؓ کا تفصیلی ذکر قطعاً مقصود نہیں۔ اس لئے کہ یہ تفصیلات سیرت و تاریخ کی کتابوں میں مفصل موجود ہیں۔ یہاں صرف ان کے سن وفات کا تذکرہ مقصود ہے۔ البتہ چیدہ چیدہ واقعات اس لئےذکر کئے تاکہ سیرت سے وابستہ افراد کے سامنے ان کا تعارف ہو سکے۔نیز عنوان میں دس صحابہ کے تذکرہ کی طرف اشارہ ہے اور ذیل میں گیارہ صحابہ کا ذکر ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ دو صحابہ کرامؓ عبداللہ بن بُسر المازنی ؓاور سہل بن سعد الساعدیؓ کی تاریخ وفات ایک ہی سال میں کتابوں نے لکھا ہے چنانچہ میرے لئےان میں سے کسی ایک کو پس اندازکرنااور دوسرے کو لےکر دس کی فہرست مکمل کرنا مشکل تھا ،اس لئے میں نے دونوں کواس فہرست میں جگہ دی۔

نمبر1…عبداللہ بن جعفرؓ(م۔۸۴ھ)

سلسلہ نسب: عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف و یکنی ابو جعفر ۔

آپؓ نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی کے بیٹے تھے۔محمد ابن سعد (م۔230ھ) لکھتے ہیں کہ والدہ کا نام اسماء بنت عمیس بن معد بن تیم بن مالک بن قحافۃ ہے۔ زوجہ کانام الامیہ ہے ، جس سے جعفر پیدا ہوئے اور اسی پر آپ کی کنیت مشہور ہے۔ ایک زوجہ زینب بنت علی بن ابی طالب ہے جو کہ فاطمہؓ بنت محمد رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہے۔ اس سے علی عون الاکبر ، محمد و عباس اور ایک لڑکی اُم کلثوم پیدا ہوئے۔ ایک زوجہ جمانۃ بنت المسیب ہے۔ اس سے حسین اور عون الاصغر پیدا ہوئے ۔ یہ حسین ؓ ابن علی کے ہمراہ شہید ہوئےتھے۔ ایک زوجہ الخوصاء بنت خصفۃ بنت ثقف ہے جس سے ابا بکر، عبید اللہ اور محمد پیدا ہوئے ۔

عبداللہ بن جعفر حبشہ میں پیدا ہوئے ۔ جب جعفر بن ابی طالب حبشہ کی طرف ہجرت کرکےگئے تو وہاں عبداللہ پیدا ہوئے جو مسلمانوں کے یہاں پیدا ہونے والے پہلے بچے تھے ۔ عبداللہ کے علاوہ عون اور محمد بھی حبشہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ 7 ھ میں جعفر بن ابی طالب معہ اہل و عیال مدینہ واپس ہوئے۔ یہ غزوہ خیبر کا زمانہ تھا۔ عبداللہ کی عمر اس وقت سات سال تھی ۔
عبداللہ بن جعفر فرماتےہیں کہ جنگ موتہ میں میرے والد جعفر بن ابی طالب شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کے اٹھایا اور تین مرتبہ فرمایا کہ اے اللہ تو جعفر کے اہل میں ان کا خلیفہ ہو جا اور عبد اللہ کےہاتھ کےمعاملات میں برکت دے۔ اس کے بعد ہماری والدہ آئیں اور یتیمی کا فریاد کر نے لگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم ان لوگوں پر تنگدستی کا اندیشہ کرتی ہو حالانکہ میں دنیا و آخرت میں ان کا ولی ہو ۔

آپ ؓ جنگ صفین میں حضرت علی ؓ کی طرف سے شریک ہوئے۔ جنگ بندی کے صلح نامہ پر حضرت علی ؓ کی طرف سے گواہ تھے۔ ابن ملجم نے جب حضرت علیؓ کو شہید کر دیا تو قصاص میں عبداللہؓ ہی نےاس کےہاتھ پاؤں کاٹ کر بدلہ لیا تھا ۔
آپؓ سے کی احادیث مروی ہیں۔ تلامذہ میں آپ کے بیٹے، اسماعیل، مطربہ، ابو جعفر، محمد ابن علی بن حسین، قاسم بن محمد ، عروہ بن زبیر، سعد بن ابراہیم، عبداللہ بن ابی ملیکہ وغیرہ ہیں ۔آپؓ انتہائی سخی تھے۔ مدینہ میں اس زمانہ میں دس اصحاب سخاوت میں مشہور تھے، آپ ان سب میں بڑھ کر تھے۔ اس سخاوت کی وجہ سے آپؓ کو بحر الجود کہا جاتا تھا۔ زیاد بن اعجم پانچ مرتبہ ان کے پاس دیتوں کے سلسلہ میں امداد طلب کرنے آئے اور آپؓ نے ان کی طرف سے پانچوں مرتبہ دیت ادا کی ۔
آپؓ نے ایک دفعہ زبیر ابن العوامؓ ،جو ابو بکر صدیقؓ کے داماد اور اسماء بنت ابوبکر صدیقؓ کے شوہر تھے، کو دس لاکھ درہم قرض دیئےتھے۔ جب زبیر ؓ جنگ جمل میں شہید ہوئےتو ان کے بیٹے عبداللہ بن زبیر ؓ آپؓ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے اپنے والد کے وصیت نامہ میں دیکھا ہے کہ آپ ؓکے ذمہ دس لاکھ درہم ہیں۔ آپؓ نے جواب دیا کہ بے شک وہ سچے ہیں ، جب تم چاہو مجھ سے وصول کر لو۔ بعد میں عبداللہ بن زبیرؓ حقیقت جان گئے تو دوبارہ ملاقات پر کہا کہ مجھے وہم ہو گیا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر ؓ نے کہا کہ اب وہ مال نہیں کا ہے دینے کی ضرورت نہیں۔ اس کی زیادہ اصرار پر آپ ؓنے کہا کہ اچھا بدلہ میں جو چاہو ادا کرو، رقم ہو یا کوئی مال وغیرہ۔ چنانچہ وہ آپؓ کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک ویران زمین آپؓ کو بدلہ میں دے دی۔ معاملہ طے پانےکے بعد آپ ؓنے اس زمین پر غلام سے مصلّی بچھوایا اور دو رکعت نماز طویل سجدہ کےساتھ پڑھی اور دعا کی۔ جب فارغ ہوئے تو غلام کو حکم دیا کہ سجدہ کی جگہ کھودو۔ چنانچہ وہاں پانی کا چشمہ نکل آیا ۔
سخاوت او جود و عطا کے اور بھی ان کے قصے سیرت کی کتابوں میں مذکور ہیں ، یہ واقعہ فقط نمونہ مشتے از خروارے کےطور پر ذکر کیا۔

عبداللہ بن جعفرؓ شام، بصرہ اور کوفہ میں بھی اقامت پذیر ہوئے لیکن آخر میں مدینہ آگئے ۔ آپؓ اعلیٰ اخلاق و سیرت اور کردار کے اوصاف سے متصف تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ عبداللہ صورۃً اور سیرۃً میرے مشابہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اموی خلیفہ ابان بن عثمان تدفین کے وقت آپؓ کی صفات بیان کر ہے تھے اور رو رہے تھے ۔

وفات

آپؓ وفات النبیﷺ کے وقت دس سال کے تھے۔وفات کا واقعہ یوں ہے کہ ایک دفعہ بطن مکہ جو مدینہ کےقریب ہے، میں زبردست سیلاب آیا جس سے بہت تباہی مچ گئی تھی، اسی میں آپ ؓ بھی فوت ہوگئے۔ یہ عبدالملک بن مروان کا زمانہ تھا ۔ وفات کے وقت عمر 90 سال تھی ۔ ابان بن عثمان جو مدینہ کےوالی تھے نے جنازہ پڑھائی۔ غسل و کفن میں شریک رہے۔ جنازہ کےوقت لوگوں کا ازدحام تھا۔ بقیع میں مدفون ہوئے۔ ابان بن عثمان بقیع تک جنازہ کے ساتھ آئے ۔ غم کا یہ عالم تھا کہ رخسار پر آنسو رواں تھے اور کہتے تھے کہ واللہ تم میں خیر ہی تھا ، شر نہ تھا۔ واللہ تم اصیل، شریف اور نیک تھے ۔آپؓ کی وفات 84ھ میں ہوئی۔ ابوالحسن علی الشیبانی الجزری ، خلیفہ بن خیاط ، ابن عساکر، ابن حجر العسقلانی ، اور ابو القاسم البغوی وغیرہ نے 84ھ کے اقوال نقل کئے ہیں۔

نمبر2۔ابو اُمامہ الباہلیؓ(م۔۸۶ھ)

سلسلہ نسب: صدی بن عجلان من بنی سھم بن عمرو بن ثعلبۃ بن غنم بن قتیبہ بن معن بن مالک بن اعصر۔ کنیت ابو امامہ الباہلی ہے اور یہ زیادہ مشہور ہے ۔ امام بخاری(م۔256ھ) نے آپؓ کا سلسلہ نسب یوں لکھا ہے۔ صدی بن عجلان بن وھب بن عمرو ابو امامہ الباہلی ۔

اسلام لانے کے بعد سب سے پہلے صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے اور بیعت رضوان میں شریک ہو کر بیعت رضوان میں شامل ہوئے ۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت لَقَد رَضِیَ اللہ نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں ان میں سے ہوں جنہوں نے درخت کے نیچے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟ تو آپﷺ نے فرمایا تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔

مسلمان ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے آپ کو اپنی قوم باہلہ کی طرف بھیجا۔ یہ جب وہاں پہنچے تو ان کےقوم کے لوگ اونٹوں سے دودھ دوھ کر پی رہے تھے۔ آپ کی قوم کو آپ کے اسلام لانے کا پتہ چل چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا سنا ہے کہ تم بے دین ہو چکے ہو۔ آپ نے کہا بے دین نہیں ہوا، البتہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لا یا ہو اور رسول اللہ ﷺ نے آپ کی طرف بھیجا ہے تاکہ آپ کے سامنے اسلام اور ا س کے قوانین پیش کر وں۔ اسی اثنا میں ایک شخص خون سے بھرا ایک برتن لایا اور سب اس کو پینے لگے۔ آپ کو شرکت کی دعوت دی ۔ آپ نے قرآن کی آیت حرّم علیکم المیتۃ والدّم ولحم الخنزیز سنائی اور کہا کہ اللہ نے اس چیز کو حرام قرار دیا ہے۔ آپ نے ان سے پانی مانگا تو انہوں نے انکار کیا، چنانچہ آپ وہاں ریت پر لیٹ کر سوگئے۔ خواب میں اللہ نے آپ کو سیراب کردیا۔ اس کے بعد تھوڑی سی گفتگو کے بعد وہ مسلمان ہوگئے ۔
رسول اللہ ﷺ کے احادیث کو دوسروں تک پہنچا نا ان کا خاص شعف تھا۔ جہاں دو چار آدمی ایک جگہ بیٹھے مل جاتے ان کے کانوں تک احادیث نبویﷺ پہنچا دیتے۔ سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ ابو اُمامہ کے پاس بیٹھتے تو وہ ہم کو احادیث کی بہت باتیں سناتے اور کہتے کہ ان کو سنو، سمجھو او ر جوسنتے ہو اس کو دوسروں تک پہنچاؤ ۔داڑھی کو زرد رنگ دیتے تھے ۔ آپ نے پہلے مصر میں قیام کیا اور بعد میں حمص شام میں سکونت اختیار کی۔ ان کی روایت کثرت سے ہیں ۔آپ سے روایت لینے والے سلیم بن عامر، قاسم ابو عبید الرحمن، ابو غالب الحزور، شرحبیل بن مسلم اور حمید بن ربیعۃ وغیرہ ہیں ۔وفات کے بعد آپ نے ایک بیٹا چھوڑا جس کا نام مغلِّس بیان کیا جاتا ہے ۔ 86 ھ میں 91 سال کی عمرمیں عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں شام میں وفات پائی۔ شام میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے ۔

وفات

الاصابہ فی تمییز الصحابہ، تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم، تاریخ دمشق لابن عساکر، العبر فی خبر من غبر تمام کتابوں کے مصنفین نے 86ھ کو ان کی وفات کا سال ذکر کرکے اتفاق کیا ہے۔

نمبر3۔ عبداللہ بن الحارث بن جزءٍ الزبیدیؓ(م۔۸۶ھ)

سلسلہ نسب: عبداللہ بن حارث بن جزءٍ بن عبداللہ بن معدیکرب بن عمرو الزبیدی۔ الزبیدی اس لئے کہلاتے ہیں کہ آپ کے آباواجداد میں زبیدی نام کا ایک شخص تھا جو کہ یمن کے قبیلہ مذحج کے سردار تھے ۔

آپ کے ایک چچا محمیۃ بن جزءٍ تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے اور مال غنیمت کی تقسیم پر مامور تھے ۔ محمیۃ بن جزءٍ ہجرت ِحبشہ دوم میں گئے تھے۔ قدیم الاسلام تھے اور حبشہ سے آخر میں واپس لوٹے تھے۔ سب سے پہلے غزوہ مریسیع میں شریک ہوئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے خُمس نکالنے پر نگران بنایا ۔ اس لئے محمد بن سعد ؒ نے کہا ہے کہ رسول اللہ نےالمریسیع میں خمس کی تقسیم اور مسلمانوں کے حصوں پر محمیۃ بن جزءٍ الزبیدی کو عامل بنایا ۔ یعنی یہ غزوہ بدر میں شریک نہ تھے۔محمیۃ بن جزءٍ اُم الفضل لبابہ بنت الحارث کے اخیافی بھائی تھے، اور یہ عباس بن عبدالمطلب کی زوجہ تھی ۔
عبداللہ بن الحارث کا ایک بیٹا الربیع تھا ، جو کہ آپ سے روایت بھی لیتا تھا ۔ آپ کے تلامذہ میں عبدالملک بن مُلیل البلوی، مسلم بن یزید الصدفی، عقبہ بن مسلم التجیبی، عباس بن جلید الحجری، آپ کا بیٹا الربیع وغیرہ شامل ہیں ۔
آپ فرماتے تھے کہ جس نے تفقہ فی الدین حاصل کیا اللہ اس کے رزق اور پریشانی کے لئے غیب سے کافی ہو جائیں گے ۔

وفات

آپ فتح مصر میں شریک تھے اور بہت بوڑھے ہو چکے تھے ۔ مصر میں اقامت اختیار کی اور وہی پر عبدالملک بن مروان کے زمانہ میں فوت ہوگئے۔ مصر میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے ۔ سن 86ھ آپ کا سال وفات ہے۔ صاحب ِ معرفۃ ابو نعیم، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تاریخ الاسلام الذہبی سب نے 86ھ سالِ وفات ذکرکیا ہیں۔

نمبر4۔ سہل بن سعد الساعدیؓ(م۔۸۸ھ)

سلسلہ نسب: سہل بن سعد بن مالک بن خالد بن ثعلبہ بن حارثہ بن عمرو بن خزرج بن ساعدہ الساعدی ۔ کنیت ابوالعباس تھی ۔ اسلام لانے سے قبل آپ کا نام خزن رکھا گیا تھا ، رسول اللہ ﷺ نے تبدیل کر کے سہل رکھ لیا ۔

ابی بن عباس بن سہل بن سعد الساعدی بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا (سہل کے والد) سعد بن مالک ؓ غزوہ بدر کے لئےتیاری کر چکے تھے لیکن کوچ کرنے سے قبل ہی مقام روحا میں وفات پا گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے آپ کا حصہ غنیمت بدر سے الگ کر لیا تھا۔ بنی قارظ کے قریب مدفون ہوئے ۔
آپؓ ہجرت سے 5 سال قبل پیدا ہوئے ، یعنی پانچ سال کے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو پہلی بار دیکھا ۔غزوہ اُحد میں باوجود یکہ 8،9 سال عمر تھی پھر بھی دیگر لڑکو ں کے ساتھ شہر کی حفاظت کر رہے تھے۔ رسول اللہﷺ کے زخموں کو جب دھویا گیا تو یہ اس وقت آپﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے ۔ غزو ہ خندق میں صغر سنی کے باوجود عالم جوش میں خندق کھودتے اور مٹی اُٹھا کر کندھے پر لے جاتے ۔ عبدالمہیمن بن عباس بن سہل بن سعد الساعدی اپنے والد عباس سے اور وہ اپنے والد سہلؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے لئے جنگل کے درخت طرفاء سے تین درجے کا منبر بنایا گیا ، سہل اس کی ایک ایک لکڑی اُٹھا کر لاتے تھے ، یہاں تک کہ انہوں نے اس کو مقام منبر پر رکھدیا ۔

حضرت سہل ؓ سے کسی نےپوچھا کہ نبی اکرمﷺ کا منبر کس لکڑی سے بنا ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا واللہ یہ بات سب سے زیادہ مجھے معلوم ہے کہ وہ کس لکڑی سے بنا ہواتھا؟ کس نے اسے بنایاتھا؟ کس دن بنایا گیا تھا؟ کس دن مسجد نبوی میں لا کر رکھا گیا اور جس دن نبی کریم ﷺ ا س پر رونق افروز ہوئےوہ بھی میں نے دیکھاہے ۔

سہل ؓ کے تین بیٹے تھے۔ عباس بن سہل، یحییٰ بن سہل اور ایاس بن سہل ۔ محمد ابن سعد ؒ نے آپ کی دو بہنوں کا ذکر کیا ہے۔ عمرہ بنت سعد ؓاور نائلہ بنت سعدؓ۔ آپ کی ایک پھوپھی زاد بہن بھی عمرہ نام کی تھی جس کی والد ہ کا نام ہند بنت عمرو ہے جو کہ آپ ؓ کی پھوپھی تھی ۔ یہ سب بھی مشرف بہ اسلام تھے اور نبی کریم ﷺ سے بیعت کر چکےتھے ۔ سہل ؓ کےایک بھائی کا نام سہیل بن سعد الساعدیؓ ہے جس کو رسول اللہ ﷺ کی بیعت حاصل تھی ۔ ابن مندہ اور ابو نعیم بیان کرتے ہیں کہ ایک بھائی ثعلبہ بن سعد بن مالک الساعدی ؓ بھی تھے جو کہ بدر اور پھر اُحد میں بھی شریک ہوئے اور احدکےدن شہید ہوئے۔ یہ آپ سے عمر میں بڑے تھے ۔سہل بن سعد ؓ کے تلامذہ آپ کے بیٹے عباس، ابو حازم ، زہری ، یحییٰ بن میمون، سعید ابن مسیب، وفاء بن شریح وغیرہ تھے۔

وفات

سہل ؓ 88ھ 91 سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں فوت ہوئے۔ مدینہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے۔
معجم الصحابہ للبغوی، تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم، معرفۃ الصحابہ لابی نعیم وغیرہ کے مصنفین نے اس پر اتفاق کیا ہیں کہ سہل بن سعد ؓ 88 ھ میں فوت ہوئے۔

نمبر5۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ(م۔۸۸ھ)

سلسلہ نسب: عبداللہ بن ابی اوفیٰ واسم ابی اوفیٰ علقمہ بن خالد بن الحارث بن ابی اُسید بن رفاعہ بن ثعلبہ بن ھوازن بن اسلم بن افقی من خزاعہ و یکنی ابا معاویہ ۔

عبداللہ بن ابی اوفیؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سات غزوات کئے اور ہم ٹڈی کھاتے تھے ۔ اسماعیل بن ابی خالد کہتےہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیؓ کے ہاتھ میں تلوار کے زخم کا نشان دیکھا پوچھا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مجھے حنین کی جنگ میں مارا گیا تھا ۔ میں نے کہا کہ آپؓ حنین کی جنگ میں حاضر تھے۔ انہوں نے کہا ہاں اور اس سے پہلے بھی ۔ آپؓ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں بھی شریک تھے۔ چنانچہ ان سے روایت ہے ۔ عمرو بن مرّہ کہتے ہیں کہ عبداللہ فرماتے ہیں کہ بیعت رضوان میں ہم 1300 اصحاب تھے ۔

عمرو بن مرۃ ہی سے نقل ہے کہ ہم نے عبداللہ بن ابی اوفیؓ کو کہتے ہوئے سنا کہ ایک دفعہ میں نے رسول اللہﷺ کو کچھ صدقہ دیا تو آپﷺ نےدعا دی کہ اے اللہ اٰل ابی اوفیٰ پر سلامتی اور رحمت نازل فرما ۔آپؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ رحمت اس قوم میں نازل نہیں ہوتی قاطع رحم کے موجود ہو ۔اسماعیل بن ابی خالد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفیٰ سرخ خضاب کیا کرتے تھے ۔آپؓ کا ایک بھائی زید بن اوفیٰ ہے اور یہ مواخاۃ کے وقت حاضر تھے۔ ان سے کئی احادیث مروی ہے۔ عبداللہ بن شرحبیل کہتے ہیں کہ زید بن ابی اوفیؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے طلحہ اور زبیر سے فرمایا کہ تم دونوں میرے حواری ہو جیسا کہ عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے۔اور پھر ان دونوں میں مواخاۃ قائم کی ۔

وفات

ابن الاثیر الجزری الکامل فی التاریخ میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفیؓ الاسلمی 87ھ میں فوت ہوئے اور حدیبیہ اور خیبر میں شریک تھے ۔ عبدالعزیز الکتانی لکھتے ہیں کہ 86ھ میں وفات ہوئی اور کوفہ میں وفات پانے والے آخری صحابی تھے ۔سلیمان التجیبی لکھتے ہیں کہ آپؓ 87ھ یا88 ھ میں فوت ہوئے اور کوفہ میں آخری صحابی تھے ۔ابوالقاسم ابن عساکر نے بحوالہ ابو نعیم اور بحوالہ بخاری ؒلکھا ہیں کہ 87ھ یا 88ھ میں فوت ہوئے ۔

نمبر6۔ عبداللہ بن بُسر المازنیؓ(م۔۸۸ھ)

سلسلہ نسب: عبداللہ بن بُسر المازنی مازن بن منصور و یکنی ابا صفوان ۔

عبداللہ بن بُسرؓ خود بیان فرماتےہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ہمارےگھر تشریف لائےتو ہم نے آپ ﷺ کےحضور کھانا پیش کیا۔ آپ ﷺ نے اس سے تناول فرمایا ۔ اس کے بعد کھجوریں پیش کی گئی تو آپﷺ اسےکھاتے تھے اور گٹھلی کو اپنے دو انگشت سُبابہ اور وسطی سے پھینکتے تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور برکت کی دعا دی۔ آپ ؓ نے دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھی ۔
عبداللہ ؓ اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے اور فرماتے یہ میرا ہاتھ ہے ، اس سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ہے ۔
جریر بن عثمان اور صفوان بن عمرو کہتے ہیں کہ ہم نے عبداللہ بن بُسر صحابی کو دیکھا ہے۔ آپؓ ننگے سر تھے اور سر اور داڑھی زرد تھی ۔جریر بن عثمان کہتے ہیں کہ میں نےعبداللہ کو دیکھا کہ کپڑےسمیٹے ہوئے تھے اور کرتے پر چادر اوڑھ رکھی تھی ۔ اگر آپ کو راہ میں کوئی پتھر نظر آتا تو اسے ہٹا دیا کرتے تھے ۔

عبداللہ بن بُسر کی والدہ کا نام کتابوں میں اُم عبداللہ درج ہے۔عبداللہ کے ایک بھائی عطیہ بن بُسر المازنی تھے ۔آپؓ کی ایک بہن الصماء کے نام سے تھی جو آپ سے عمر میں بڑی تھی۔یہ احادیث سے شغف رکھتی تھی اور روایات کےسلسلے میں ان کا نام بھی ذکر کیا جاتا ہے ۔

امام بخاریؒ (م-256ھ) نےتاریخ صغیر میں عبداللہ بن بُسر کے حوالے سے لکھا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق فرمایا یہ لڑکا ایک صدی زندہ رہے گا ۔ چنانچہ وہ ایک سو سال تک زندہ رہے ۔

وفات

ابو القاسم البغوی نے معجم الصحابہ میں بحوالہ ابو سلمہ 87 ھ سن وفات ذکر کیا ہے ۔ عبد العزیز الکتانی الدمشقی نے تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم میں بحوالہ واقدی اور عمرو بن نمیر 88ھ سن ذکر کیا ہے ۔ ابو القاسم ابن عساکر نے بھی تاریخ دمشق میں بحوالہ خلیفہ بن خیاط 88ھ اور 94 سال کی عمر درج کیا ہے ۔ محمد ابن سعد البصری نے بھی طبقات الکبریٰ میں 88ھ سن وفات لیا ہےاور آپ نے بھی 94 سال کی عمر میں وفات پر اتفاق کیا ہے ۔ اسی طرح عبد الحی الحنبلی نے بھی شذرات الذھب میں88 ھ سن وفات لکھا ہے اور کہتےہیں کہ حمص میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے ۔

نمبر7۔ ہرماس بن زیاد الباھلیؓ(م۔۹۰ھ)

سلسلہ نسب: ہر ماس بن زیاد بن مالک بن عمرو بن عامر بن ثعلبہ بن غنم بن قتیبہ الباھلیؓ ویکنی ابا حدیر ۔ ابو نعیم نے سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے۔ ہرماس بن زیاد بن عمرو بن عامر الباھلیؓ و یکنی ابا جُدیر ۔ ابوالحسن الجزری نے لکھا ہے کہ آپؓ کا نام شریح تھا ۔ ابن حبان نے لکھا ہے کہ آپؓ یمامی تھے ۔

عکرمہ سے روایت ہے کہ ہمیں ہرماس بن زیادؓ نے بتایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یوم الاضحیٰ کے دن اس حالت میں دیکھا کہ وہ اپنی سواری پر بیٹھےخطبہ دے رہے تھے، حال یہ تھا کہ میں اپنے والد کے پیچھے بیٹھا تھا ۔ ہرماس ؓ رسول اللہ ﷺ کے لئے اپنے والد کے ہمراہ حاضر ہوئے چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔اکمال تھذیب میں ہے کہ یہ ایک وفد کے ساتھ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئے تھے اور رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ۔ جبکہ ایک روایت یوں ہے۔

“عن عكرمة بن عمار، عن الهرماس بن زياد، قَالَ: مددت يدي إلى رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وأنا غلام ليبايعني فلم يبايعني” ۔
” عکرمہ بن عمار کہتے ہے کہ ہرماس بن زیاد نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھایا لیکن آپ ﷺ نے مجھے بیعت نہیں کیا اس لئے کہ میں اس وقت چھوٹا تھا”۔

قعقاع بن زیاد روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد ہرماس بن زیادؓ سے سنا ۔ وہ فرماتے تھے کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔آپ ﷺ نے میرے والد کو اسلام پر بیعت کیا ۔ اس نے آپ ﷺ سےعرض کیا کہ میرے اور میرے اولاد کے لئے دعا فرمائے۔ آپﷺ نے دعا دی اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا ۔

ہرماس بن زیاد ؓ سے ایک اور روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اس حالت میں دیکھا کہ آپﷺ نعلین میں نماز ادا فرما رہے تھے ۔

روی عنہ: عکرمہ بن عمار، حنبل بن عبداللہ کے علاوہ آ پ کے بیٹے بھی آپؓ سے روایت لیتے تھے ۔ اکمال میں ہے کہ آپؓ شعر گوئی بھی کرتے تھے ۔ آپ اور ابو امامہ الباھلی ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ابی ذکریا بن مندہ کہتے ہیں کہ ہرماس بن زیاد یمامہ میں فوت ہونے والے آخری صحابی تھے ۔

وفات

شمس الدین الذھبی سیراعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ” أَظُنُّ الهِرْمَاسَ بَقِيَ حَيّاً إِلَى حُدُوْدِ سَنَةِ تِسْعِيْنَ” ۔ اسی طرح تاریخ الاسلام میں لکھتے ہیں کہ آپؓ 90ھ میں فوت ہوئے ۔ جبکہ علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ نے 102ھ سن وفات مذکور کیا ہے ۔ صلاح الدین خلیل الصفدی نے الوافی بالوفیات میں بھی اسی طرح لکھا ہے کہ آپ ؓ 90 ھ کے حدود میں وفات ہوئے ۔علاء الدین مغلطائی نے بحوالہ ابو نعیم اور ابی ذکریا بن مندہ اکمال تھذیب میں لکھا ہے کہ آپؓ نے طویل عمر پائی اور یمامہ میں فوت ہوئے والے آخری صحابی تھے ۔

نمبر8۔ السائب بن یزیدؓ(م۔۹۱ھ)

سلسلہ نسب: السائب بن یزید بن سعید بن ثمامہ بن الاسود ۔ ابن اخت النمر کے لقب سےمشہور تھے ۔آپؓ کو الھذلی بھی کہا جاتا تھا ۔

آپ ؓ کی والدہ اُم العلاء بنت شریخ الحضرمیہ تھی۔ علاء بن الحضرمی ان کے ماموں تھے ۔العلاء بن الحضرمی وہ مشہور صحابی تھے ، جس کو محمد ﷺ نے منذر بن ساوی العبدی بادشاہ بحرین کےہاں خط دے کر بھیجا گیا تھا ۔
غزوہ ذی امر ( جس میں ایک کافر نے آپﷺ کی تلوار اُٹھا کر کہا تھا کہ آپ کو مجھ سے کون بچائے گا۔)سے رسول اللہ ﷺمدینہ واپس پہنچے تو السائب بن یزیدؓ کی پیدائش اس وقت ہوئی تھی ۔آپؓ اور رسول اللہ ﷺ کےنواسے حسن بن علی بن ابی طالبؓ ہم عمر تھے ۔ دونوں ایک ہی سال پیدا ہوئے۔

امام بخاریؒ کی روایت ہے کہ السائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے نبی کریم ﷺ کی معیت میں حج کیا ۔ اس وقت میں چھ سال کا تھا ۔السائب بن یزید ؓ سےمروی ہے کہ میں بچوں کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی تبوک آمد کے بعد ملاقات کے لئے نکلا ۔امام بخاریؒ ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ السائب بن یزیدؓ فرماتے ہیں کہ ان کی خالہ انہیں رسول اللہﷺ کے پاس لے گئی جبکہ مجھے درد تھا۔ نبی اکرمﷺ نے ان کے سر پرہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ پھر آپﷺ نے وضو کیا تو وضو کا باقی ماندہ پانی انہوں نے پی لیا۔ میں آپﷺ کےپس پشت کھڑا تھا تو میں نے دونوں شانوں کے درمیاں مہر نبوت دیکھا ۔

مدینہ میں کبار صحابہ کے بعد جو لوگ افتاء کی خدمت انجام دیتے تھے ان میں السائب بن یزیدؓ بھی تھے ۔ حضرت عمر فاروقؓ نےاپنےزمانہ خلافت میں آپؓ کو مدینہ کے بازار کا نگران مقرر کیا تھا ۔ابو مردود کہتے ہیں کہ میں نے السائب کو آخر عمر میں دیکھا کہ سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکےتھے ۔

روی عنہ: الزہری ، عمر بن عطاء، عبدالرحمن بن حمید، محمد بن یوسف وغیرہ نے آپ سے روایت کی ہے ۔

وفات

ابو القاسم البغوی نے معجم الصحابہ میں بحوالہ ابومسہر 91ھ سال وفات درج کیا ہے ۔اسی طرح عبدالعزیز الکتانی نے جعد بن عبدالرحمن کے حوالہ سے تاریخ مولد العلماء ووفیاتہم میں91ھ لکھا ہے ۔ اور ابو نعیم نے بحوالہ ابن نمیر معرفۃ الصحابہ میں یہی 91 ھ ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ آپؓ نے 94 سال کی عمر میں وفات پائی ۔

نمبر9۔ انس بن مالکؓ(م۔۹۳ھ)

سلسلہ نسب: انس بن مالک بن نضر بن بن ضمضم بن زید بن حرام بن جندب بن عامر بن غنم بن عدی بن النجار ابو حمزہ انصاری خزرجی ۔

آپؓ کے والد مالک بن نضر تھے جو اسلام لانے کی وجہ سے اپنی بیوی اُم سلیم سے ناراض ہو کر شام چلےگئےاور وہی پرانتقال ہوا ۔والدہ کا نام اُم سلیم بنت ملحان تھا، جو کہ آپ کے بھائی البراء بن مالک کی بھی والدہ تھی ۔ والدہ کا اصل نام ملیکۃ بنت ملحان تھا اور لقب الرمیصاء تھا ۔یہ رشتہ میں رسول اللہﷺ کی خالہ تھیں۔مالک بن نضر کے چھوڑے جانے کے بعد آپ نے ابو طلحہ زید بن سہل الانصاری سے نکاح کیا ۔ ان سے عبداللہ اور ابا عمیر پیدا ہوئے۔حضرت صفیہ اُم المومنین جب غزوہ خیبر سے اسیر ہو کر آئی تو آپ ؓ ہی نے ان کو دلہن بنا کر خیمہ اطہر میں بھیجا ۔ اسی طرح اُم المومنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا جب آپ ﷺ کی نکاح میں آئی تو بھی آپ نے ہی ان کو تیار کرکے رخصت کیا ۔اُم سلیم کے دو بھائی حرام بن ملحان ؓ اور سلیم بن ملحان ؓ واقعہ بیر معونہ ،جس میں صحابہ کرامؓ تعلیم کے لئے بھیجے گئے تھے،میں شہید کر دیئے گئے تھے ۔آپ غزوات میں شریک ہوتی اور پیاسوں کو پانی پلاتی اور زخمیوں کی مرحم پھٹی کرتی۔ غزوہ حنین میں شہید ہوئی ۔

آپؓ کا لقب خادم الرسول ﷺ تھا اور آخر عمر تک آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی۔ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی ۔آپ فرماتے سےایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائےتو میری عمر دس سال تھی۔ میری ماں اُم سلیم مجھے رسول اللہﷺ کے پاس لے آئی اور کہا کہ یہ لڑکا آپﷺ کی خدمت کرے گا ۔ تو آپ ﷺ نے قبول فرمایا ۔

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری عمر8 سال تھی جب میں رسول اللہﷺ کی خدمت پر مامور ہوا ۔آپؓ کی کنیت خود نبی اکرمﷺ نے ابو حمزہ رکھی تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ حمزہ نامی ایک قسم ترکاری کو چنا کرتے تھے یعنی اس کو پسند کرتے تھے۔ آپ اس کنیت پر فخر بھی کرتے تھے ۔کھبی کھبی نبی اکرمﷺ آپ سے مزاح میں یا ذا لاُذنین بھی کہا کرتے تھے ۔

آپ کے مولیٰ نے آپؓ سے سوال کیا کہ آپ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ تو آپ نےکہا آپکی ماں نہ رہے میں بدر سے کہاں غائب ہو سکتا تھا ۔ علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں اصحاب سیر نے آپؓ کو اہل بدریین میں اس لئے شمار نہ کیا کہ اس وقت آپ کم عمر تھے۔

امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے موسیٰ نے اسحاق بن عثمان کے حوالہ سے نقل کیا ، فرمایا میں نے موسیٰ بن انس سے پوچھا، حضرت انسؓ نے رسول اللہﷺ کی معیت میں کتنے غزوات میں شرکت کی؟ فرمایا آٹھ غزوات ۔
اُم سلیم جب آپؓ کو رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے آئی تو عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ انیس کے لئے دعا فرمائیں ۔ چنانچہ آپﷺ نے دعا کی ۔ اللّھم اکثر مال وولدہ وادخلہ الجنۃ ۔ انس ؓ فرمایا کرتے تھے کہ دعا کے دو آثرات تو دیکھ لئے ہیں اُمید ہے کہ تیسرا بھی دیکھ لوں گا ۔آپﷺ نے برکت کی دعا فرمائی تھی چنانچہ کہتے ہیں کہ آپؓ کا ایک باغ تھا جو سال میں دو مرتبہ پھل لاتا تھا۔ اس باغ میں ریحان کا درخت تھا جس سے مشک کی خوشبو آتی تھی ۔مال کی یہ حالت تھی کہ انصار میں کوئی شخص انکے برابرنہ تھا۔ اولاد کی اتنی زیادتی تھی کہ خاص انسؓ کےاسّی لڑکے اور دو لڑکیا ں تولد ہوئیں۔ اور پوتوں کی تعداد اس پر مستزاد تھی۔ وفات کے وقت بیٹوں اور پوتوں پوتیوں کا ایک پورا کنبہ چھوڑا تھا جن کا شمار سو سے اوپر تھا ۔

علی بن جعد شعبہ سے اور وہ ثابت سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ھریرہؓ نے فرمایا کہ اُم سلیم کے بیٹے یعنی انس ؓ سے بڑھ کر میں نے کسی کی نماز رسول اللہ ﷺ کی نماز کے مشابہ نہیں دیکھی -ابن عون نے بحوالہ موسیٰ بن انس بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابو بکرؓ خلیفہ بنے تو آپؓ نے انسؓ کو سعایہ (صدقات کی وصولیابی) کےلئےبحرین بھیجنا چاہا۔ عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ انہی کو بھیجیں کیونکہ یہ عقلمند کاتب ہیں ۔ چنانچہ آپ نے انہیں روانہ کیا ۔

حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں آپ کو تعلیم فقہ کےلئےایک جماعت کے ساتھ بصرہ روانہ کیا ۔ حضرت انس نے مستقل طور سے بصرہ میں سکونت اختیار کی اور زندگی کا بقیہ حصہ وہی بسر کیا ۔حجاج نے انس بن مالک اور سہل بن سعد الساعدی اور دیگر معززین صحابہ و تابعین کے گردنوں میں مہر لگائی تھی۔ اس کے خیال میں ان لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت اور شہادت کے وقت مدد نہیں کی تھی۔ حالانکہ یہ سب لوگ اس الزام سے مبراء تھے۔ حجاج نے ان لوگوں کی تذلیل اور لوگوں کو ان سے دور رکھنے کی غرض سےایسا کیا تھا۔ابن ابی ذئب نے اسحاق بن یزید سے روایت کی ہے کہ میں نے انس بن مالکؓ کو دیکھا کہ اس کی گردن پر مہر لگا ہوا تھا۔ جو کہ حجاج نے ان کی تذلیل کے لئےلگایا تھا ۔

روی عنہ : آپ مکثرین صحابہ میں سے ہیں۔ آپ سے روایت کرنے والے ابان بن صالح، ابن بن ابی عیاش، ابراہیم بن مسہر، ابن اخیہ اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ ، ابو امامہ اسعد بن سہل، اسماعیل بن عبدالرحمان السدی، زید ابن بنت انس بن مالک، و ابن ابنہ ثمامۃ بن عبداللہ بن انسؓ ، وابن ابنہ حفص بن عبید اللہ بن انس ابن مالکؓ اور ایک کثیر جماعت ۔

وفات

ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں وفات پائی ۔وصیت کی تھی کہ ابن سیرین غسل دے گا۔ اس وقت وہ اسیر تھے چنانچہ قید سے اجازت دی گئی۔ انہوں نے آپؓ کو غسل دیا اور پھر قید خانہ چلے گئے، گھر نہیں گئے ۔امام بخاری نے بحوالہ ابن علیہ نقل کیا ہے کہ آپؓ کی وفات 93ھ میں ہوئی ۔علامہ بغوی نے بھی93 ھ سن وفات لیا ہے ۔ابونعیم نےبھی بحوالہ السری ابن یحیٰ نقل کیا ہے کہ 93ھ میں فوت ہوئے ۔ابن عساکر نے بحوالہ احمد بن حنبل ؒ لکھا ہے کہ جمعہ کے دن سن 93ھ میں انتقال کیا ۔علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ مدائنی اور خلیفہ بھی اس پر متفق ہیں ۔اپنے محل میں مقام طرف میں فوت ہوئے ۔ جنازہ قطن بن مدرک الکلابی نے پڑھائی ۔ثابت بنانیؒ فرماتے ہے کہ مجھے انس بن مالکؓ نے فرمایا کہ یہ رسول اللہﷺ کا موئے مبارک ہیں انہیں میری زبان کے نیچے رکھیں۔ چنانچہ وفات کے بعد وہ بال ان کی زبان کے نیچے رکھے گئے اور اسی حالت میں انہیں دفن کیا گیا ۔

نمبر10۔ محمود بن الربیعؓ(م۔۹۹ھ)

سلسلہ نسب: ابن سراقہ بن عمرو بن زید بن عبدۃ بن عامرۃ بن عدی بن کعب ابن الخزرج بن الحارث بن الخزرج ویکنی ابا نعیم ۔

آپؓ کی والدہ جمیلہ بنت ابی صعصعہ بن زید بن عوف بن مبزول من بنی مازن بن النجار تھی ۔آپ عبادہ بن صامت ؓ کے ختن تھے ۔آپ کی والدہ کا پہلا نکاح عبادہ بن صامت سے ہوا تھا۔ بعد میں ربیع ابن سراقہ سے نکاح ہوا جو کہ آپؓ کے والد تھے ۔آپؓ کی زوجہ اُم حرام بنت ملحان تھی جو کہ انس بن مالکؓ کی خالہ تھی۔ ان سے محمد پیدا ہوا ۔ ابن عساکر نے محمود بن الربیعؓ کے دو بیٹوں کا ذکر کیا ہے۔ ابراھیم اور محمد ۔ اس لئے آپ کی ایک کنیت ابو محمد بھی ہے اور ابن حجر کے بقول یہی مشہور ہے۔ اور یہ صحیح اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عساکر نے جن دو بیٹوں کا ذکر کیا ان میں ایک محمد بھی ہے ۔ اور عرب زیادہ تر کنیت بیٹوں اور بیٹیوں کے نام پر ہی رکھتے تھے۔

محمود بن الربیعؓ نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تھا لیکن اس وقت آپ چھوٹے تھے ۔زہری آپؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ؓ فرماتےتھے کہ مجھے وہ کُلی بھولی نہیں جو رسول اللہﷺ نے ہمارےگھر کے کنویں سےمیرے منہ پر کی تھی اور میں پانچ سال کا تھا ۔یہ روایت دوسرے کئی کتب میں بھی مذکور ہیں۔ابن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ محمود بن الربیعؓ نے رسول اللہﷺ کو دیکھا تھا لیکن روایت ان سے نہیں ہے۔ جبکہ محمود بن الربیعؓ سے الزھری، مکحول، رجاء بن حیوۃ، عبداللہ بن عمرو بن الحارث وغیرۃ نے روایت لی ہے ۔

وفات

آپؓ نے سن 99ھ میں وفات پائی۔ محمد ابن سعد نے محمد بن عمر کے حوالہ سے 99ھ ذکر کیا ہے ۔ابو عمر النمر ی القرطبی نے بھی 99ھ پر اتفاق کیا ہے ۔ابن عساکر نے عبداللہ التمیمی کےحوالہ سے یہی 99ھ سن وفات لیا ہے ۔علامہ ابن حجر العسقلانی ؒ نے ابو مسہر کے حوالہ سے 99ھ ہی ذکر کیا ہے ۔ ان کےعلاوہ ابن حبان بھی اس پر متفق ہیں۔

نمبر11۔ ابو طفیل عامر بن واثلہؓ(م۔۱۱۰ھ)

سلسلہ نسب: ابوالطفیل عامر بن واثلہ بن عبداللہ بن عمر بن جیحش بن جزی بن سعد بن لیث بن بکر بن عبد مناۃبن علی بن کنانہ بن خزیمہ ۔

ابو طفیل فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو سواری پر سوار بیت اللہ کا طواف کرتے دیکھا ، اس وقت میں چھوٹا تھا ۔آپؓ فرماتے تھے کہ میں نے نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ کے آٹھ سال پائے ہیں اور میں جنگ اُحد کے سال پیدا ہوا تھا ۔ابن عساکر کے بقول آپؓ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہﷺ کےہمراہ تھے ۔عبداللہ بن عباس ؓ نے ایک دفعہ ان سے حضورﷺ کا حلیہ بیان کرنے کو کہا۔ آپؓ نے بیان کیا کہ آپﷺ کو میں نے مروہ اونٹنی پر سوار دیکھا اور لوگ آپﷺ کے اردگرد جمع تھے۔ ابن عباس ؓ نے کہا بلا شبہ وہ رسول کریمﷺ ہی تھے اور بلا شبہ عوام آپﷺ سے علحیدہ ہونا نہیں چاہتے تھے ۔

ابو الطفیل شعر بھی کہتے تھے۔37ھ میں جنگ صفین واقع ہوا۔ آپ اس میں حضرت علیؓ کی حمایت میں شامل تھے۔ لشکر میں ہاشم بن عتبہ صحابی بھی تھے جو کہ جنگ جلولا میں شریک تھے اور لڑائی میں ان کی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی تھی۔ جنگ صفین میں بڑی بہادر ی سے لڑے ۔ ان کی ایک ٹانگ کٹ گئی اور شہادت نصیب ہوئی۔ ابوالطفیل نے ان کے بارے میں شعر کہا۔

يا هاشم الخير جزيت الجنة قاتلت فِي الله عدو السنة

“اے اچھے ہاشم تجھے اللہ اس کے بدلے میں جنت دے تم خدا کے لئے رسالت کے دشمن سے لڑتے رہے ہو”۔
ابن حجر نے ابو عمر کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ابو الطفیل ابی بکر و عمر رضی اللہ وعنہما کے فضل کے قائل تھے، لیکن علیؓ کو ان پر مقدم رکھتے تھے ۔آخر عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ روئے زمین پر میرے سوا کوئی باقی نہ رہا جو یہ کہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا ہے ۔

آپ ؓ بہت صاف گو اور نڈر تھے۔باوجودیکہ علی ؓ کے حمایتی تھے،ایک دفعہ امیر معاویہ ؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے پوچھا کہ تم علیؓ سے کس درجہ محبت کرتے ہو ۔ آپؓ نےجواب دیا کہ جیسے موسیٰ کی ماں کو موسیٰ سے تھی۔امیر معاویہؓ نے پوچھا کہ تم نے عثمان ؓ کی مدد کیوں نہ کی؟ آپؓ نے جواب دیا کہ ہم تو ان کو بچاؤ کیا تھا لیکن تم ہی بتاؤ کہ تم نے کیوں عثمانؓ کی مدد نہ کی ۔ تم شام میں تھے ، تمہارے پاس حکومت بھی تھی، سب لوگ تمہارے ماتحت تھے۔امیر معاویہؓ نے آخر پوچھا کیا میں عثمانؓ کے قصاص میں حق بجانب ہوں؟ آپؓ نے کہاں ہاں مگر تمہاری مثال ایک شاعر کے اس شعر کی طرح ہے۔

لا الفينك بعد الموت تندبني وفي حيات ما زودتني زادي

“میں پسند نہیں کرتا کہ تم بعد از موت مجھ پر آہ و زاری کرو جبکہ میری زندگی میں تم نے مجھے کھبی پوچھا تک نہیں کہ میں نے کھانا کھایا ہے”۔
ابو عمر یوسف النمری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد یہ کوفہ چلے گئے ۔ حضرت علی ؓ کے زمانہ تک وہاں رہے لیکن اُن کی شہادت کے بعد مکہ آگئے اور یہی وفات ہوئی ۔

وفات

شمس الدین الذھبی ،سیف بن وھب کا بیان نقل کرتے ہیں کہ میں مکہ میں ابوالطفیل سے ملا اس نے مجھے فرمایا کہ میری عمر 90 سال سے متجاوز ہے۔ اور جریر بن حازم کا بیان ہے کہ میں نے 110 ھ میں ابوالطفیل کا جنازہ دیکھا ۔یہ روایت علامہ ابن حجر نے وھب بن جریر کے حوالہ سے نقل کی ہے کہ وھب بن جریر بن حازم اپنے والد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ 110ھ کے سال میں مکہ میں تھا، میں نے ایک جنازہ دیکھا اور دریافت کیا تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ ابو الطفیل ہیں ۔عبدالحی الحنبلی لکھتے ہیں کہ آپؓ 110ھ میں فوت ہوئےآپؓ آخری صحابی تھے جنہوں نے دنیا میں رسول اللہﷺ کو دیکھا تھا۔ اُحد کے سال پیدا ہوئے اور رسول اللہﷺ کے ہمراہ آٹھ سال پائے۔ آپؓ انتہائی عاقل اورحاضر جواب تھے ۔
محمد بن حبان نےالثقات لابن حبان اور مشاہیر علماء الامصار میں 107ھ ذکر کیا ہے ۔ابو الحسن الجزری نے بھی 110 ھ سال وفات ذکر کیا ہے ۔

2 thoughts on “سلسلہ صحابہ میں وفات پانے والے آخری دس صحابہ کرامؓ کا تحقیقی تذکرہ”

  1. Pingback: سید علی ہجویری - نیوز فلیکس

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *