اپالو 8 کے تین خلائی مسافر 27 دسمبر 1968 کو بحر الکاہل میں اترے تھے۔زمین سے چاند تک کا سفر کرنے میں ان امریکی خلابازوں کو چھ دن تین گھنٹے لگے اور انہوں نے تقریباً پانچ لاکھ 47 ہزار میل کا سفر طے کیا۔ان کے سفر کا سب سے زیادہ نازک لمحہ وہ تھا جب کہ ان کا چھ ٹن وزنی جہاز ساٹھ میل کے فاصلے سے چاند کا چکر لگا کر دوبارہ زمین کے قریب واپس پہنچا۔
امریکی خلائی راکٹ جب زمین کی بیرونی فضاء میں داخل ہوا تو زمین کی کشش کی وجہ سے اس کی رفتار غیر معمولی طور پر بڑھ کر 39 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگئی۔چاند کے مقابلہ میں اس کو سات گنا زیادہ قوت کششِ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا تھا۔ اس غیر معمولی رفتار کی وجہ سے خلائی جہاز انتہائی خوفناک قسم کی گرمی سے دوچار ہوا۔کرہ فضاء میں داخل ہوتے ہی خلائی جہاز ہوا کی رگڑ سے گرم ہونا شروع ہوا۔یہاں تک کہ وہ آگ کے انگارے کی طرح سرخ ہوگیا۔اس وقت خلائی جہاز کے بیرونی حصہ کی تپش تین ہزار تین سو گریڈ (چھ ہزار ڈگری فارن ہائٹ) تھی،جبکہ صرف سو ڈگری کی حرارت پر پانی ابلنے لگتا ہے۔
تین ہزار تین سو ڈگری سینٹی گریڈ کی حرارت میں کوئی جاندار زندہ نہیں رہ سکتا۔پھر اس غیر معمولی تپش تینوں خلائی مسافر کس طرح زندہ سلامت رہ کر واپس آگئے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جس خلائی جہاز کے اندر وہ بند تھے،وہ خاص طور پر اس ڈھنگ سے بنایا گیا تھا کہ وہ باہر کی شدت کو اندر نہ پہنچنے دے۔چنانچہ سخت گرمی کے باوجود اس کے اندر کا درجہ حرارت 21 ڈگری سینٹی گریڈ سے آگے نہیں بڑھا۔باہر کا درجہ حرارت تین ہزار تین سو اور اندر کا درجہ حرارت 21 ڈگری سینٹی گریڈ۔
خلائی سفر کا یہ واقعہ اپنے اندر بڑا سبق رکھتاہے۔انسانی زندگی میں بھی بار بار ایسے سخت مرحلے آتے ہیں۔جب بیرونی ماحول انتہائی طور پر آپ کے خلاف ہوجاتا ہے۔اس وقت حالات کی شدت سے بچنے کی صرف ایک سبیل ہوتی ہے۔وہ یہ کہ آپ اپنے اندرونی جذبات کو دبائیں اوراپنے اندر محبت اور درگذر کے جذبات کی پرورش کریں۔ باہر کی دنیا آپ کے ساتھ برائی کا معاملہ کرے تو آپ بھلائی کی صورت میں اس کا جواب دیں۔یہی طریقہ زندگی اور کامیابی کا طریقہ ہے۔اگر آپ بھی ویسے ہوگئے جیسا ماحول تھا تو یقیناً آپ مقابلہ کی اس دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔