5 بچوں کی ماں کا غیر مرد سے رشتہ رکھنے کا انجام ؛؛چونکا دنیے والی کہانی
گجرات کے علاقے شادیوال کے رہائشی 22 سالہ قاتل اور ترکی سے ڈی پورٹ ہوکر آنے والے اس بظاہر اسلامی اُصولوں اور ضوابط کے پابند مگر کفِ افسوس عقل پر چھائے بے شمارلا علمی اور جہالت کے پردوں کے حامل اِس نوجوان کے چہرے پر ندامت کے آثار دُور دُور تک نہیں تھے اور اس کی آواز کا بے ساختہ پن اپنے گھناؤنے جرم کا کھلے عام اعتراف کر رہا تھا کہ جس بے حیائی اور بے خوفی سے اُنہوں نے ناجائزتعلق کو پانچ ماہ سے استوار کر رکھا تھا۔
کمال حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کم علم جاہل قاتل کو بھی اپنی حرام کاری کے کرتوت میں اچھائی کے نمبر ون اصول درکار تھے بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہا تھا کہ 27 سالہ مقتولہ اور پانچ بچوں کی ماں نے اُس سے بے وفائی کی ہے اس لیے اس نے اسے بے دردی سے قتل کر دیا ۔
ساتھ یہ بھی دعوی کیا کہ وہ صرف خدا سے ڈرتا ہے اور کسی سے نہیں؟؟ شاید وہ یکسر بھول گیا ہے یا یہ کہ جہالت اس کے دِعوے کی پوری طرح سے قلعی کُھول رہی ہے کہ جس خدا سے ڈرنے کا دعویٰ وہ کر رہا ہے ۔اُس خدائے لم یزل نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے” کچھ شک نہیں کہ خدا سے ڈرتے ہیں مگر متقی لوگ “کاش اس نوجوان نے صحیح علم کی راہ اپنائی ہوتی تو وہ دعویٰ کرنے سے پہلے اپنے اندر چھپے شیطان کو پہچان لیتا لیکن ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ بقول مُجرم ؛ اُ س نے مُقتولہ کے کے سبب اپنے گھر والوں کو بھی چھوڑ دیا تھا تو ایک ایسا شخص جو اپنے والدین، بہن بھائیوں کا نہ ہو سکا تو اُس کی اخلاقی ساکھ کیا ہوگی ؟؟
کیا وہ واقعی خدا سے صحیح معنوں میں ڈرنے والا تھا؟ 22 سالہ قاتل نے کس بے رحمی سے خنجر کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا اور ساتھ ہی اپنی ناجائز تعلق سےپیدا ہونے والے بچے کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اور اس پر یہ دعویٰ کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے۔ہائے افسوس ، کفِ افسوس اور شومئی قسمت کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔ سنا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جس میں لوگ حلال و حرام کی تمیز بھوُل جائیں گے شاید یہ وہی وقت ہے کہ ناجائز تعلق عرف ِ عام میں جس کو زنا کہتے ہیں اور پھر اس پر کہ انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اس سے بڑھکر انسانی جان کی حرُمت کیا ہو سکتی ہےاور مزید برآں کہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ بھی تھا ۔آہ کتنے جرُائم کااُس کم بخت اور بدقسمت نوجوان نے ارتکاب کیا اور اُس پر یہ کہ شرمندگی ذرا بھی نہیں، دِراصل یہ شیطانیت کی واضح مثال ہے۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ قاتِل کے عمل اور قتل کی مذمت سے زیادہ اس بات پر نوحہ و ماتم کرنے کی ضرورت ہے کہ قاتل سمجھتا ہے کہ جو کچھ اُس نے کیا ٹھیک اور حق تھا اور اُسے اِس پر کوئی پُشیمانی نہیں اور اُسے خُدا کے سوا کسی شخص، ادارے اور معاشرے کا خوف ذرا بھی نہیں۔ شاید اُس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ سارے انسان اُسی کی طرح کے ہیں۔ فارسی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ ” چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارِد “چور کی جرات تو دیکھو کہ وہ چوری کرنے کے لیے چراغ بھی ساتھ لایا ہے۔مختصر اِس المیہ پر بس یہی کافی ہے کہ شرم مگر تم کو نہیں آتی۔۔۔۔۔