معذور افراد ، معاشرہ اور ہمارا کردار۔۔۔۔۔۔ تحریر: عزیزاللہ غالب

In شوبز
January 13, 2021

اللہ رب العزت نے دنیا کو اضداد سے پیدا کیااور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔دن رات،گرمی سردی،بہار خزاں،صحت بیماری،غم خوشی زندگی اور موت اس حقیقت کی زندہ مثالیں ہیں۔ہم روز سنتے ہیں کہ وقت ایک جیسا نہیں رہتا اگر کہیں خوشیوں کے شادیانے بچتے ہیں تو کہیں غم اور مصیبت میں گرے لوگ آہ و بکا کر رہے ہیں۔یہ انسانی زندگی کے رنگ ہیں جو مختلف اوقتات میں مختلف وجوہات کی بنا بدلتے رہتے ہیں۔

کائنات میں تبدیلیاں ازل سے رونما ہوتی چلی آئی ہیں۔جس میں کچھ تبدیلیاں قدرتی طور پر وقوع پذیر ہوتی ہیں اور کچھ انسانی حرکات و سکنات کی وجہ سے وجود میں آتی ہیں۔صحت اور بیماری بھی انسانی زندگی سے وابستہ دو حقائق ہیں۔جن میں اول الذکر تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور مؤخرالذکر اللہ تعالیٰ کی آزمائش کے طور پر ہم گردانتے ہیں۔صحت ایک انمول تحفہ ہے جو انسانی زندگی کا محور ہوتاہےاگر خدانخواستہ صحت نہ ہو تو انسان بے بس اور کمزور ہوجاتا ہے۔کسی نے کیا خوب کہا ہے ”جان ہے تو جہان ہے“یا”تندرستی ہزار نعمت ہے“۔ جب انسان صحت مند ہوتا ہے تو نہ صرف اپنے کام کاج بخوبی سرانجام دیتا ہے بلکہ وہ معاشرے کے دیگر نادار اور مفلس افراد کا بوجھ اُٹھانے میں خوشی و مسرت محسوس کرتا ہے۔ہم روز دیکھتے ہیں کہ جسمانی طور پر معذور اور مالی طور پر کمزور لوگ بازاروں اور گلی کوچوں میں بھیک مانگ کر اپنا گذارۂ اوقات چلاتے ہیں اور لوگوں کی تلخ و شیرین باتیں سن سن کر اپنا وقت گذار تے ہیں۔ان لوگوں کی عزت نفس معاشرے کے اُن لوگوں کے ہاتھوں بُری طرح مجروح ہوتی ہے جو خود تو عیش و عشرت کی زندگی گذار تے ہیں مگر اِن بیمار اور نادار معذور لوگوں کیلئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتے۔

بعض اوقات تو یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشرے کے بدست نوجوان ان فقیر اور گداگروں کے پیچھے نعرے لگاتے ہیں اور فقرے کہتے ہیں۔جس سے ان غریبوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔جسمانی طور پر معذور ان لوگوں میں کچھ ایسےبھی شامل ہیں جو معاشرے پہ بوجھ بننے کی بجائے اپنی روزی خود تلاش کرلیتے ہیں۔وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔وہ چاہتے ہیں کہ وہ ایسے ذرائع معاش اپنائیں جس کا فائدہ عام لوگوں تک پہنچے اور اُن کی ذاتی زندگی کسی کی مرہون منت نہ ہو۔ایسے لوگوں کی مثالیں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔جو خود کسب حلال کے ذریعے اپنا رزق کماتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں۔ ایسےمعذور افراد کی عظمت کو زمانہ سلام کرتا ہے۔پاکستان میں بسنے والے لاکھوں معذور افراد میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس قابل نہیں کہ محنت مزدوری کرسکے اور اپنا پیٹ پال سکے۔ان بے سہارا افراد کی مدد کیلئے فی الوقت سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کوئی مناسب انتظام نہیں جس کی وجہ سے وہ مجبوراً بھیک مانگ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ایک طرف ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ معذور اور لاچار افراد کیلئے صحیح معنوں میں وہ کچھ نہیں کرتے جو ان کا حق ہے۔اس کے برعکس اگر ہم ماضی میں جھانکے اور مسلمانوں کے ہزار سالہ اسلامی حکومت کا مطالعہ کرے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ تمام لاچار اور معذور افراد کیلئے اُس وقت تمام سہولیات مہیا کئے گئے تھے۔

ایک بار عمر بن عبدالعزیزسے کسی نے پوچھا کہ آپ کے دور خلافت میں بے سہارا اور معذور لوگوں کو اُن کے حقوق مہیا نہیں تو آپ نے جواباً کیا خوب فرمایا ”اُس تمام رقبے میں گھوموں جو میرا دائرہ خلافت میں ہے اور مجھے کوئی ایک ایسا معذور لاکر دیکھاؤ جس کو ایک معاون نہ دیا گیاہو اور کوئی ایک ایسا بوڑھا آدمی ڈھونڈو جس کو خلیفہ وقت کی طرف سے عصا نہ دی گئی ہو“یہ تھی ہماری ماضی جہاں تمام باسیوں کو اُن کے حقوق اُن کے دہلیز پر مہیا تھے۔اُن کو سستا اور فوری انصاف مہیا ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کی طرف سے تعلیم،صحت اور بیت المال کا انتظام موجود تھا۔اگر ہم بیرونی دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ معذور افراد کیلئے باقاعدہ حقوق دئیے گئے ہیں۔ان کیلئے تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کے بھی مواقع فراہم کئے گئے ہیں۔ان معذور افراد کے سیروتفریح کا بھی مناسب انتظام موجود ہے۔ان کیلئے الگ سکولز، کالجز، ہسپتالز اور پارکیں بنائے گئے ہیں۔اللہ کریں کہ ہماری حکومت اس طرف توجہ دے اور ان معذور افراد کی حقوق پائمال ہونے سے بچائیں۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

/ Published posts: 21

میرا نام عزیزاللہ غالب ہے میرا تعلق ادب سے ہے یعنی میں شاعر ہوں اور لکھنے کے ساتھ بہت قریبی تعلق ہے ان شاءاللہ نیوزفلکس میں ادب ، معاشرتی اور سیاسی تحریریں سامنے لے کر آوں گا

Facebook