قانونی اصطلاحات :اردو فارسی کا تقابلی مطالعہ

In ادب
April 16, 2021
قانونی اصطلاحات :اردو فارسی کا تقابلی مطالعہ

(ڈاکٹر شاہین شاہ ایڈوکیٹ)

برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے قبل جو قانونی نظام رائج تھا۔ وہ براہ راست ایران اور مشرق وسطی کے قوانین سے اخذ شدہ تھا۔ تاہم مغربی قوتوں کے تسلط کے دور میں ایران اور برصغیر دونوں میں مقامی قوانین مغربی قوانین سے متاثر ہوئے۔ اس طویل دور میں نہ صرف قانونی ڈھانچہ متاثر ہوا بلکہ نئۓ قانونی تصورات اور اس کے ساتھ نئی اصطلاحات نے بھی جگہ پائی۔ برصغیر میں اردو زبان میں جدید انگریزی قانون کی اطلاحات وضع کرنے کے لیے ابتداہی میں ترجمے اور تالیف کا کام نظر آتا ہے۔

فلیکس بتروس کی کتاب 1843ء میں اصول قانون سازی شائع ہوئی۔ جو اصول قانون سازی پر کسی یورپی کی پہلی اردو کتاب تھی۔ مغرب کے قوانین سے آشنائی کے لیے ترجمے کا بھی سہارا لیا گیا۔ جیسے 1844ء میں رام کشن کا ترجمہ “اصول قوانین ممالک مغربی تصورات کی تفہیم کے لیۓ ھی تراجم کا سہارا لیا گیا۔ جیسے مولوی تاج الدین احمد جوہر مختار چیف کورٹ، لاہور نے اپنے ذاتی شوق سے اس سلسلے میں اہم خدمات سر انجام دی جن میں سب سے نمایاں ممتاز برطانوی قانون دان پارکر کے لیکچر کا ترجمہ تھا۔ تاہم اس سلسلے میں منظم کوشش ہمٰ ریاست حیدرآباد اور عثمانیہ یونیورسٹی کے دارلترجمہ میں نظر آتی ہیں۔ ڈبیلو ایچ ریٹگن کی کتاب کا ترجمہ مانک شاہ نے کیا۔ جبکہ ظفر یلی خان کی کتاب ‘جورس پروڈنس’ بھی اس حوالے سے اپنے عہد کی ممتاز تصنیف تھی۔ بعد میں سرکاری سرپرستی میں ڈپٹی نظیر احمد جیسے لائق مصنف اور اپنی ثقافت کے وارث افراد کی اس شعبہ میں خدمات نے قانونی اصطلاحات کے علمی مرتبے کو بہت بلند کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں قانونی اصطلاحات میں تصورات انگریزی قانون کے لیکن الفاظ اور ثقافتی پس منظر ایران اور عرب کا ہے۔

دوسری طرف ایران میں بیرونی تسلط کے زمانے میں قانونی اصطلاحات کا باقاعدہ نظام موجود نہ تھا۔ بلکہ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میں یہ اصطلاحات بکھری پڑی ہیں۔ جیسے عبدالرحمان جامی کی ‘ انشاے جامی’ اور محمد جعفر کی ‘انشاۓ عجیب’ جبکہ مرزا محمد حسن قتیل کی کتاب ‘ثمرات بدیع’ ایسی فرہنکیں ہیں جن میں قانونی اصطلاحات ملتی ہیں۔ استعمار سے آزادی کے بید قومی تشخس کو بنیاد بنا کر قانونی اصطلاحات کو ازسر نو مرتب کیا گیا۔ اب جدید ایران میں ایسی سینکڑوں کتب اور لغات ہیں جو خاص اسی موضوع پر شائع ہویئ ہیں۔

یوں قانونی میدان میں فارسی اور اردو میں موجود جدید قانونی اصطلاحات نہ صرف قانون ے پیسشے سے متعلق ماہرین کے لئے عملی اہمیت رکھتی ہیں، بلکہ یہ وسیع تر تناظر میں تشخس کی بازیفت کے دو خطوں میں ہونے والی ایک ہی کوشش کے دو رنگ ہیں۔ اردو اور فارسی میں قانونی تصورات کے اشتراک کا کمال عترت جیسی قدیم فرہنگ سے لے کر جدید فرہنگ تک دیکھا جاسکتا ہے۔