حدیث :ملک شام میں ایک یہودی رہتا تھا وہ ہفتے کے دن تورات کی تلاوت کیا کرتا تھا ۔ایک دفعہ تورات کھولیں،تو اس میں چار مقام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف دیکھی۔ یہودی نے وہ جگہ کاٹ کر جلا دیں اگلے ہفتے پھر تورات کھولیں تو آٹھ جگہوں پر حضور صل وسلم کی نعت اور وصف کا ذکر پایا ۔اس نے یہاں سے بھی کاٹ کر جلایا تیسرے ہفتے تورات کھولی،تو یہی تذکرہ کئ مرتبہ موجود پایا۔یہودی سوچنے لگا کہ اگر میں یوں ہی کرتا رہا تو ساری کی ساری تورات اس تذکرے سے پر ہو جائے گی۔اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لیے بہتر ہے کہ نہ تو اسے دیکھے اور نہ وہ تمہیں دیکھے ۔یہودی کہنے لگا کہ تورات کی قسم مجھے اس کی زیادہ سے نہ روکو ۔پس ساتھیوں نے اجازت دیا اور یہ اپنی سواری پر سوار ہو کر منزل بہ منزل چلتا رہا مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو نہایت خوبصورت باریش سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہوئی ۔ان کے حسن دیکھ کر سمجھا کہ یہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ہالا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا سے سفر کیے تین دن ہو چکے تھے حضرت سلیمان رضی اللہ اس کی بات سے روئے اور کہا میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور غلام ہو یہودی بولا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں اب حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی سوچنے لگا کہ اگر وصال کی خبر سناتا ہوں تو یہ واپس جائے گا اگر یہ کہہ دو کہ موجود ہیں تو جھوٹ ہوگا۔آخر کار حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ یہودی سے کہنے لگا کہ میں تجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے چلتا ہوں مسجد میں آئے تو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ سب کے سب غم کی تصویر بنے ہوئے تھے ۔یہودی نے یہ سمجھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود ہوں گے۔السلام علیکم یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ کہا جس سے تمام صحابہ رضی اللہ عنہ میں ایک کہرام مچ گیا اور سب آہ و بکا کرنے لگے اور یہودی سے پوچھنے لگے کہ تم کون ہو،جس نے ہمارا زخم تازہ کر دیا ۔یہ تو کوئی اجنبی معلوم ہوتا ہے اور شاید تجھے معلوم نہیں کہ حضور صلی وسلم کا تین دن پہلے وصال ہو چکا ہے۔یہ سن کر وہ یہودی چیخنے لگا کہ ہائے میرا غم میری سفر کی ناکامی اور اے کاش !میری ماں مجھے نہ جنتی اور جن ہی دیا تھا توکاش میں تو رات نہ پڑتا اور وہ بھی پڑی تھی ،تو کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف پر نظر نہ پڑتی اور اگر یہ بھی ہو گیا تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہو جاتی ۔پھر کہنے لگا کہ کیا یہاں پر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ موجود ہیں جو مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف اور حلیہ مبارک کا تعارف کرائیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ آگے بڑھے اور فرمایا میرا نام علی ہے یہودی بولا میں نے تیرا نام بھی تو رات میں دیکھا ہے ۔حضرت علی نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کرنا شروع کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ حد سے زیادہ لمبے اور نہ زیادہ چھوٹے تھے۔سر مبارک گول تھا پیشانی کشادہ اور آنکھوں کا رنگ خوب سیاہ تھا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پلکیں دراز تھیں۔ ہنسی کے دوران میں دانتوں سے شعاعیں نکلتی تھیں۔ سینہ سے ناک تک بالوں کی لکیر تھی ۔ہتھیلیاں پر گوشت تھیں۔ قدموں کے تلوے قدرے گہرے تھے ۔بدن کے جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں۔ مثلا کہنیاں اور گھٹنے اور آپ صلی اللہ وسلم کے شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی ۔یہودی کہنے لگا علی رضی اللہ تعالی عنہا تو نے جو کچھ بتایا سچ بتایا ،تورات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف اسی طرح موجود ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کپڑا موجود ہو تو میں سونگھنا چاہتا ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا ،ہاں حضرت سلیمان رضی اللہ تعالی عنہ ہو جاؤ اور فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ ان سے کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ذرا بھیج دو۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا پیغام دیا اور سارا قصہ سنایا۔حضرت فاطمہ جبہ نکال لائی جو سات جگہوں سے کچھور کے ریشہ کے ساتھ سلا ہوا تھا۔حضرت علی نے اسے پکڑ کر سونگھا پھر دوسرے صحابہ کرام نے پھر یہودی پکڑ کر سونگھنےلگا اور کہا کہ واہ کیسی عمدہ خوشبو ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر حاضر ہوا اور آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہنے لگا کہ اے اللہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو واحد یکتا اور یگانہ ہے۔ کائنات تیری نیاز مند اور بے نیاز ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ اس قبر شریف میں تیرا حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو کچھ اس نے فرمایا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس پر ایمان لایا ہوں ۔اللہ تعالی میرا اسلام تیری بارگاہ میں قبول ہے تو میری روح قبض کر لے ۔یہ کہہ کر وہیں گر کر جان دے دی۔ بعد میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اسے غسل دیا اور جنت البقیع میں دفن کر دیا