جسم کے تقاضے کچھ اور ہیں اور روح کے تقاضے کچھ اور ہیں جسم کو بھی بھوک اور پیاس لگتی ہے اور روح کو بھی بھوک اور پیاس لگتی ہے جسم کی سیر اور سرابی کا سامان اور ہے اور روح کا اور جسم کی غذا روٹی اور پانی ہے اور روح کی غذا دوعا ہے تلاوت ہے جیسے جسم بیمار ہوتا ہے ایسے ہی روح بھی بیمار ہوتی ہے جیسے جسم کے معالج ہوتے ہیں ایسے روح کے بھی معالج ہوتے ہیں۔
آج کے انسان کی ساری توجہ جسم کو بنانے اور سنوارنے پر ہے کوئی موٹا ہے تو دبلا ہونا چاہتا ہے کوئی دبلا ہے تو موٹا ہونا چاہتا ہے اور اس پر کروڑوں روپے خرچ کئیے جاتے ہیں جگہ جگہ ایسے پارلر اور سینٹر بنے ہوے ہیں جہاں جسم کو بنانے اور سنوارنے کا کام کیا جاتا ہے عورتوں کا اس طرف دھیان پہلے بہت زیادہ تھا لیکن مرد بھی اب اس میں پیش پیش نظر آتے ہیں اور کھل کے لوگ انکی جہبیں خالی کرتے ہیں۔
جسم کو بنانے کی فکر tتو ہر کسی کو ہے لیکن روح بنانے کی فکر کرنے والوں کو انگلیوں پے گنا جا سکتا ہے حلانکہ جو ہمارا خالق اور مالک ہے وہ جسم کی بناوٹ کو نہیں دیکھتا وو تو روحانی صفائی کو پسند کرتا ہے اگر کوئی شخص حسن و جمال کا شاہکار ہے مگر اسکا دل گندے اخلاق کا مرکز ہے اسکے اندر کفر و شرک بھرا ہوا ہے اور ایک دوسرا شخص جس کا رنگ کالا ہے اسکے نقوش بھدے ہیں اسکا لباس پھٹا ہوا ہے لیکن اسکا دل صاف ہے اسکی روح اللّه کے نور سے منور ہے تو یقین وہ اللّه کا محبوب بندہ ہے۔
صحابہؓ کو دیکھیں انکی تلاوت انکا ذکر انکی دعا انکی آہ وبکا انہیں روحانی غذا مہیا کرتا تھا ہمیں آج مخمل کے بستر پر نیند نہیں آتی انہیں ننگے فرش پر میٹھی نیند آجاتی تھی کیوں کہ وہ روحانی غذا کا اہتمام کرتے تھے۔
ہم جانتے ہیں کہ جسم کھا کر خوش ہوتا ہے اور روح کھلا کر خوش ہوتی ہے جسم گناہوں سے خوش ہوتا ہے روح حسنات سے خوش ہوتی ہے یہ اس دنیا کا بڑا فتنہ ہے کہ انسان کی ساری کوششوں کا ہدف جسم کو بنا دیا گیا ہے۔
اللّه ہم سب کو دنیا کی ان جھوٹی نمائیشوں ان شیطانی فتنوں سے بچائے اور روحانی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
تحریر:: ملک جوہر